خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر میں ایک مقامی مسجد کے خطیب کے خلاف ضلعی پولیس نے لوگوں کے ’مذہبی جذبات ابھارنے‘ اور مسجد میں آنے والے بزرگ نمازیوں کے خلاف ’نازیبا الفاظ‘ استعمال کرنے پر توہین مذہب کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔
یہ مقدمہ لوئر دیر کے مرکزی شہر تیمرگرہ کے تھانے میں درج کیا گیا ہے جہاں تعینات ایک اہلکار افتخار احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا کہ ’تیمرگرہ میں واقع ابوبکر مسجد کے امام کے خلاف جمعے کی تقریر میں اشتعال انگیز اور نفرت آمیز بیان دینے پر مقدمہ درج کیا گیا ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے پولیس ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے لیکن وہ روپوش ہیں۔‘
افتخار احمد نے بتایا: ’تعزیرات پاکستان کی دفعات 295 اے اور 506 کے تحت درج کیا گیا ہے جو مذہبی جذبات ابھارنے اور ڈرانے، دھمکانے کے حوالے سے ہیں کیوں کہ امام نے اپنی تقریر میں بزرگ نمازیوں کو مسجد آنے سے روکنے اور انہیں گولی مارنے کی ترغیب دی ہے۔‘
امام مسجد کی جس تقرير کی بات ہو رہی ہے اس کی ویڈتو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ ویڈ یو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ مسجد میں ’منافقت‘ کے موضوع پر تقریر کر رہے ہیں۔
تقریباً 30 منٹ دورانیے کی تقریر میں وہ ایک جگہ پر مسجد کی پہلے صف میں کھڑے بزرگ افراد کے لیے ’نازیبا‘ الفاظ کا استعمال کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ مسجد کی پہلی صف میں کھڑے بزرگ زیادہ تر ’منافق‘ ہوتے ہیں اور انہیں ’گولی مارنی چاہیے۔‘
تقریر میں انہوں نے اپنے طالب علموں کو ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ ’جن کی سفید داڑھی ہے انہیں مسجد کے اندر نہ آنے دیا جائے کیوں کہ ایسے لوگوں سے علما تنگ ہیں اور وہ علما کو تنگ کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھیے: مسجد کے منبر سے ووٹ کی اپیل
تیمرگرہ تھانے کے سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) بخت جمال نے بتایا کہ ’امام کی اس تقریر سے ضلع دیر نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے اور ساتھ میں وہ لوگوں کو قتل کی ترغیب بھی دے رہے ہیں جو پاکستانی قانون کے تحت جرم ہے اور اسی وجہ سے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔‘
امام مسجد اپنی ہر تقریر کو ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے ہیں۔
ان کی تقاریر کو ہزاروں افراد سنتے اور دیکھتے ہیں جہاں بہت سے لوگ ان پر تنقید کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کی جانب سے انہیں حمایت بھی حاصل ہے۔
امام مسجد نے وضاحت میں کیا کہا؟
سوشل میڈیا پر تنقید اور مقدمے کے بعد امام مسجد کی جانب سے ایک وضاحتی بیان جاری کیا گیا۔ بیان میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ’تقریر میں مسجد کی پہلی صف میں کھڑے ان بزرگوں کی بات کی ہے جو مسجد میں امام اور خطیب کو تنگ کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کچھ خطیب آئے تھے جو اس وجہ سے پریشان تھے کہ ان کی مساجد میں بزرگوں کی جانب سے انہیں تنگ کیا جاتا ہے۔
بقول امام مسجد: ’میں نے صرف ان خاص بڑوں کی بات کی ہے جو علما کو تنگ کرتے ہیں۔ میں نے ہرگز سارے بزرگوں کو ٹارگٹ نہیں کیا۔ میری ویڈیو کو غلط رنگ دیا گیا ہے۔‘
اس سے پہلے بھی مذکورہ امام کے خلاف مسجد کے اندر اسلحے کی نمائش پر پولیس میں رپورٹ درج کروائی گئی تھی۔ اس واقعے کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی تاہم بعد میں انہوں نے معافی مانگ لی تھی۔
مزید پڑھیے: شادی کی رسومات: ’خلاف ورزی پر امام مسجد جنازہ نہیں پڑھائیں گے‘
ڈاکٹر شمس الحق پشاور کے علاقے حیات آباد میں تفہیم اکیڈمی کے سربراہ اور مذہبی سکالر ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’منبر پر بیٹھ کر بزرگوں کے لیے نازیبا زبان کا استعمال اخلاقی اور شرعی طور پر درست نہیں ہے اور منبر پر بیٹھ کر نمازیوں کو گالیاں دینا شرعی طور پر بڑا گناہ ہے۔‘
بقول ڈاکٹر شمس الحق: ’بزرگوں کی عزت اور بالوں کا سفید ہونا اسلام میں قدر کا سبب ہے۔ اگر کوئی خاص بندہ مسجد میں کسی کو تکلیف پہنچاتا ہے تو شریعت میں یہ ہے کہ اسے الگ کرکے سمجھایا جائے۔‘
’خطیب صرف نصیحت کریں گے۔ وہ بھی نام نہیں لیں گے اور یہی پیغمبر اسلام کی طرف سے بتایا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کم از کم اہل علم کو یہ نہیں کرنا چاہیے کہ منبر پر کسی قسم کے نامناسب الفاظ کا استعمال ہوں۔ کہیں سے بھی ثابت نہیں ہے کہ پیغمبر اسلام نے منبر پر بیٹھ کر اس طرح کے کوئی الفاظ استعمال کیے ہوں۔‘