سندھ حکومت کی جانب سے حال ہی میں خواجہ سرا برادری کی تعلیم کے لیے خصوصی پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت تمام رسمی و غیر رسمی اداروں میں اصلاحات کی جائیں گی اور ایک بہتر تعلیمی نظام بنایا جائے گا۔
یہ فیصلہ وزیر تعلیم سندھ سید سردار شاہ کی جانب سے خواجہ سرا کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیموں پر مشتمل ایک وفد سے ملاقات کے بعد کیا گیا۔
وفد میں جینڈر انٹریکٹیو الائنس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر بندیا رانا، پروگرام مینیجر زہرش خانزادی، سماجی کارکن شہزادی رائے اور ڈاکٹر سارہ گل شامل تھیں۔ ملاقات میں ٹرانس کمیونٹی کے نمائندگان کی جانب سے اپنے مطالبات وزیر تعلیم سندھ کے سامنے رکھے گئے۔
نئی ٹرانس جینڈر ایجوکشن پالیسی کیا ہے؟
اس پالیسی پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر تعلیم سندھ سید سردار شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ پالیسی وسیع پیمانے پر خواجہ سرا کمیونٹی کی تعلیم اور ان سے متعلق معاشرتی تنگ نظری اور امتیازی رویوں کو تبدیل کرنے کے لیے ہوگی۔‘
انہوں نے کہا: ’اس پالیسی کےحوالے سے آئندہ ہونے والی اہم ملاقات میں خواجہ سرا کمیونٹی کی تمام اہم تنظیموں، سول سوسائٹی، سیاسی کارکن اور صحافی برداری کو شرکت کی دعوت دیں گے اور ان کی جانب سے رکھی جانے والی سفارشات اور مطالبات کو شامل کرکے ایک پالیسی بنائیں گے جو ٹرانس کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے پاکستان کی پہلی پالیسی ہوگی اور اس کی ابتدا صوبہ سندھ سے ہو گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کام مکمل ہونے کے بعد وہ پالیسی کو سندھ کابینہ میں منظوری کے لیے پیش کریں گے۔‘
مزید پڑھیے: کراچی کی خواجہ سرا آرادھیا فیلو شپ پر امریکہ چلیں
پالیسی کے معاشرے پر اثرات سے متعلق سوال پر وزیر تعلیم سندھ کا کہنا تھا کہ ’ہمیں سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ باہمی تعاون کے بغیر تو کوئی معاشرہ آگے بڑھ ہی نہیں سکتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’معاشرے کی سوچ تبدیل کرنے کے لیے جنرل ٹیکسٹ میں نئی چیزیں شامل کی جائیں گی اور ٹرانس کمیونٹی کے لیے جو سلیبس ہوگا وہ بھی وہی ہوگا جو دوسروں کے لیے ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آئندہ ہماری جو کتابیں آئیں گی ان میں یقیناً وہ مضمون شامل ہوگا جو معاشرے کو خواجہ سرا کمیونٹی کے حوالے سے حساس بھی کرے گا اور ان کو یہ پیغام دے گا کہ خواجہ سرا کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک نہ رکھا جائے۔‘
وزیر تعلیم نے مزید کہا: ’میری سوچ یہ ہے کہ ٹرانس کمیونٹی اور دیگر جینڈر کے بچے ایک ساتھ ایک ہی سکول میں پڑھیں کیونکہ آگے جا کر جب وہ نوکریاں کریں گے تب بھی ان کو ساتھ ہی کام کرنا ہوگا۔ باقی ان کی مرضی ہے وہ جس طرح مناسب سمجھیں۔‘
خواجہ سرا کمیونٹی کو درپیش نوکریوں کے مسئلے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سید سردار شاہ کا کہنا تھا کہ ’سندھ حکومت نے ٹرانس کمیونٹی کے لیے کوٹے کا اعلان کر رکھا ہے لیکن اس کوٹے پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا کہ خواجہ سرا کمیونٹی کو 0.5 فیصد کے تحت نوکریاں فراہم کی جائیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسا بالکل نہیں کہ وہ بس اس شرح تک ہی محدود رہیں۔ اگر وہ جنرل نشستوں پر بھی آنا چاہیں تو بالکل آسکتے ہیں۔
جینڈر انٹریکٹیو الائنس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر بندیا رانا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے صوبائی حکومت کے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ اچھی بات ہے کہ پہلی مرتبہ پاکستان میں خواجہ سرا کمیونٹی کے لیے تعلیم میں کوٹہ ہوگا۔ اس پر جتنا جلدی عمل درآمد کیا جائے اتنا ہی مفید ہوگا۔‘
یہ بھی پڑھیے: عائشہ مغل پاکستان کی پہلی خواجہ سرا وفاقی افسر کیسے بنیں؟
انہوں نے کہا کہ ’پڑھے لکھے خواجہ سرا ہوں گے تو وہ آگے جا کر نوکریاں کر سکتے ہیں۔‘
خواجہ سرا کمیونٹی کو نوکریاں نہ ملنے کے حوالے سے جب بندیا رانا سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا: ’ہم چاہتے ہیں وفاق اور سندھ حکومت دونوں ایک پالیسی تشکیل کریں جس کے تحت خواجہ سرا کمیونٹی کی تعلیم کے مطابق ان کو اچھےعہدے فراہم کیے جائیں۔‘
انہو ں نے کہا کہ ’جن خواجہ سراؤں کی تعلیم کم ہے، ان کو نچلے درجے کی سرکاری نوکریاں فراہم کی جائیں۔‘
بندیا رانا کا کہنا تھا کہ ’آج کل ان کو ای میلز موصول ہوتی ہیں کہ ہمارا فائیو سٹار ہوٹل ہے یا تھری سٹار ہوٹل ہے تو ہمیں اس کے لیے ایک بہتر انگریزی بولنے والا چاہیے، تو آج کل معیار بہت ہی بڑھ گیا ہے اور اس معیار پر پورا اترنے کے لیے یہ لازم ہے کہ انہیں اچھی انگریزی بولنا آئے۔‘