معروف کاروباری شخصیت سیٹھ عابد کی بیٹی کے مبینہ قتل کی ایف آئی آر ان کے ایک دوسرے لے پالک بیٹے کی مدعیت میں تھانہ مسلم ٹاؤن میں درج کر لی گئی ہے۔
فرید احمد کی مدعیت میں درج کروائی گئی ایف آئی آر میں دفعہ 302، 311، 109 اور 201 شامل کی گئی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے فرید احمد سے رابطہ کیا مگر انہوں نے یہ کہہ کر بات کرنے سے فی الحال معذرت کر لی کہ چونکہ کیس کی تحقیقات چل رہی ہیں اس لیے وہ ابھی میڈیا سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔
تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا کہ ’ان کی والدہ کو ان کے بھائی نے قتل کیا ہے اور انہیں انصاف چاہیے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ کا پوسٹ مارٹم ہو گیا ہے اور اب رپورٹ کا انتظار ہے۔
62 سالہ فرح مظہر کی لاش گذشتہ روز مسلم ٹاؤن میں واقع ان کے گھر سے برآمد ہوئی تھی، جس کے بعد پولیس نے ان کے ساتھ رہائش پذیر ان کے ایک لے پالک بیٹے اور تین ملازمین کو تفتیش کے لیے حراست میں لیا تھا۔
فرید احمد نے اپنی ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا ہے کہ وہ دو بھائی اور ایک بہن ہیں۔ ان کی والدہ فرح مظہر ان کے بھائی فہد اور بہن فاطمہ کے ہمراہ مسلم ٹاؤن میں رہائش پذیر تھیں جبکہ وہ خود اپنی بیوی کے ہمراہ ڈی ایچ اے فیز نائن میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھر میں 12 مرد و خواتین ملازمین بھی رہتے ہیں۔
مزید پڑھیے: لاہور: سیٹھ عابد کی بیٹی ’قتل‘، لے پالک بیٹا گرفتار
فرید کے مطابق: ’جمعے کی شب 11 بج کر 18 منٹ پر ان کے بھائی فہد نے ان کے موبائل پر کال کی اور بتایا کہ ان کی والدہ نے پیٹ میں گولی مار کر خودکشی کی کوشش کی ہے اور وہ انہیں ڈرائیور، ایک ملازمہ اور بہن کے ہمراہ اپنی گاڑی میں حمید لطیف ہسپتال لے کر آئے ہیں۔‘
فرید کا کہنا تھا کہ وہ فوری ہسپتال پہنچے مگر ان کی والدہ تب تک اس دنیا سے جا چکی تھیں۔
انہوں نے ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا کہ ان کی والدہ کے پیٹ پر سامنے گولی لگنے کا نشان موجود تھا جبکہ جب وہ گھر آئے اور پولیس کی موجودگی میں اپنی والدہ کا کمرہ چیک کیا تو وہاں کوئی پستول یا گولیوں کے خول موجود نہیں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقوعے میں ملوث افراد نے حقائق و شواہد کو مکمل طور پر مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ میری والدہ کی موت کن حالات میں ہوئی ہے، اس لیے پولیس گھر میں رہائش پذیر تمام افراد و ملازمین کو شامل تفتیش کرے۔‘
اس کیس کے حوالے سے ایس پی اقبال ٹاؤن ڈاکٹر عمارہ شیرازی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس مبینہ قتل کی تحقیقات ہر پہلو سے کی جارہی ہیں اور انہیں امید ہے کہ جلد حقائق سب کے سامنے ہوں گے۔
دوسری جانب ڈی آئی جی آپریشنز سہیل چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ابتدائی تحقیقات میں بظاہر یہ بات سامنے آئی ہے کہ مقتولہ کے چھوٹے لے پالک بیٹے نے شادی کے تنازع پر والدہ کو گولی مار کر قتل کیا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے: لاہور: برطانیہ سے پاکستان آنے والی خاتون مبینہ طور پر قتل
ان کا کہنا تھا کہ ’ملزم نے پہلے کہا کہ ان کی والدہ نے خود کشی کی ہے لیکن پولیس نے جو شواہد اکٹھے کیے ان سے اندازہ ہوا کہ خاتون کو ایک کمرے میں قتل کیا گیا جہاں فرنیچر کی توڑ پھوڑ کی گئی اور پستول غائب کر دیا گیا۔‘
سہیل چوہدری نے مزید بتایا کہ ’پولیس نے خاتون کے بیٹے اور ملازمین کو حراست میں لیا اور ملازمین نے انکشاف کیا کہ فہد پسند کی شادی کرنا چاہتا تھا جبکہ ان کی والدہ رشتے پر راضی نہیں تھیں اور اسی بات پر انہوں نے اپنی والدہ کو گولی مار کر قتل کیا اور اسے خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی جبکہ قتل کے بعد جائے وقوعہ کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی اور پستول فرش کے نیچے چھپا دیا۔‘
ڈی آئی جی کا مزید کہنا تھا کہ ’گھروں میں جھگڑے ہوتے رہتے ہیں لیکن جب تک تحقیقات پوری نہیں ہوجاتیں، ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ خاتون کی موت کی وجہ دراصل کیا بنی؟‘
قتل کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچنے والی ایس پی اقبال ٹاؤن ڈاکٹر عمارہ شیرازی اور دیگر پولیس افسران کے مطابق ملزم نے مبینہ طور پر قتل کرنے کے بعد بیڈ شیٹ تبدیل کرنے کے ساتھ دو پستول زمین میں دبا دیے اور ایک پستول کچن میں چھپادیا، جنہیں پولیس نے برآمد کر لیا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے فرح مظہر کی ایک قریبی جاننے والی خاتون سے رابطہ کیا جنہوں نے بتایا کہ فرح اپنے بچوں اور بہنوئی کی وجہ سے پریشان تھیں۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مذکورہ خاتون نے بتایا: ’ان کے شوہر تو پہلے ہی ملک میں پیسوں کا غبن کرکے امریکہ جا چکے تھے جبکہ ان کے تینوں بچے لے پالک تھے اور کاروبار بہنوئی سنبھال رہے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خاتون کے مطابق: ’فرح نے ان ہی تنازعات کی بنا پر ان سے کئی بار اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ انہیں ڈر ہے کہ ان کے بہنوئی جو کراچی میں رہتے ہیں اور ان کے بچے کسی دن انہیں قتل کروا دیں گے۔‘
پولیس کے مطابق خاتون کے شوہر پر بھی نیب میں چار ارب روپے کی انکوائری چل رہی ہے، جس کی وجہ سے وہ امریکہ جاچکے ہیں۔
یاد رہے کہ 2006 میں سیٹھ عابد کے بیٹے حافظ ایاز احمد کو پانچ افراد کے ہمراہ ستوکتلہ کے علاقے میں ایک سکیورٹی گارڈ نے گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
سیٹھ عابد پاکستان کے امیر ترین کاروباری شخصیات میں سے ایک تھے اور گذشتہ برس کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد وہ کراچی میں 85 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔
واضح رہے کہ صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کی تھی۔