نیک، شریف، مُنحنی سے بھائی ننھے پانچ بہنوں کے اکلوتے بھیا تھے۔ ان کے ابا کراچی کی ایک مرکزی سڑک پر چھ دکانوں کی چھوٹی سے مارکیٹ بنا گئے۔ ابا کی زندگی تک تو جواں سال بھائی ننھے کو ہوش بھی نہ تھا کہ ان دکانوں کے کرائے کب کون کیسے دیتا ہے، مگر باپ کے گزرتے ہی جو پہلی افتاد آن پڑی وہ تھی مارکیٹ میں بیٹھے کرائے داروں سے ماہانہ کرائے کی وصولی۔
کوئی کرائے دار آنکھ دکھاتا، کوئی بہانہ بناتا اور کوئی آنکھوں میں کاروبار مندا چلنے کے ذکر سے ٹسوے بھر لاتا۔ چھ ماہ گزر گئے مگر کرائے کی جگہ ٹھینگا ملا۔ ایک نامی گرامی وکیل کے پاس گئے۔ وکیل صاحب نے کیس کی بجائے مشورہ تھمادیا کہ میاں یہ کرایہ وصولی والے کام بدمعاش کر سکتے ہیں تم نے کہاں اوکھلی میں سر دے دیا۔ بھائی ننھے نے مشورہ گرہ سے باندھا اور مزید کچھ دھکے کھانے کے بعد بدمعاش کا روپ دھار لیا۔ چوڑے کالر، کھلے بٹن، منہ میں گٹکا، گلے میں سنہری زنجیر اور سواری میں گہرے نیلے رنگ کا ویسپا سکوٹر۔
وقت پر کرایہ ملنے لگا ، دھیرے دھیرے بھائی ننھے کو بدمعاش بننے کا چسکا لگ گیا۔ بھائی ننھے کرایہ دار تاجروں کو اپنی غنڈہ گردی کی کہانیاں، سمگلنگ کے من گھڑت قصے اور اغوا کرنے کے فلمی سین سناتے اور اپنی دھاک بٹھاتے۔ اپنے دھان پان سے جسم کو دیکھ کر من ہی من میں اپنی سکیم پر مسکراتے۔ ایک بار کسی کمبخت دکاندار نے بھائی ننھے کی مخبری کردی۔ بھرے بازار میں دبوچ لیے گئے۔ گرفتاری کے وقت بوکھلائے سٹپٹائے بھائی ننھے بس ایک ہی بات بار بارکہے جارہے تھے ’ابے بھائی میں تو صرف کہانی گھڑتا تھا۔‘ کافی دیر تو سنتا رہا جب نہ رہا گیا تو ایک کانسٹیبل بول اٹھا، ’ابے بھائی ہم بھی کہانی ہی گھڑیں گے۔‘
بھائی ننھے اور ان کی من گھڑت کہانی کا تو نجانے کیا بنا مگر کہانی سے ماضی کی ایک عجب نیوز سٹوری یاد آ گئی۔ جب سابق آمر پرویز مشرف نے نواز شریف کو اقتدار کے ایوان سے نکال باہر کیا اور اٹک جیل بھیج دیا تب ایک بڑے اخبار کے مشہور و معروف صحافی نے ذرائع سے خبر دی کہ نواز شریف کی خواب گاہ سے نفسیاتی امراض کی ادویات جبکہ ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کے لیے مختص کمرے سے ’جنس پرستوں کے لیے مخصوص‘ واٹر بیڈ، جنسی ادویات، انگریزی ناول وغیرہ برآمد ہوئے۔
اس بیہودہ خبر سے کیا نتیجہ نکل سکتا تھا سوائے اس کے کہ اک جانب کارگل چل رہا تھا، طیارہ سازش ہو رہی تھی حکومت تلپٹ ہورہی تھی مگر جنسی ادویات جان بچانے والی ادویات کی طرح خواب گاہ میں موجود تھیں۔ یہ خبر تو زرد صحافتی تاریخ کا حصہ بن گئی تاہم ان قابل اعتراض اشیا کی برآمدگی پر مزید کوئی کارروائی نہ ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیاسی ملزمان سے کچھ بھی برآمد ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ نیٹو کا اسلحہ بھی۔ جی ہاں جب 2016 میں ایم کیو ایم پر کریک ڈاون جاری تھا ایسے میں عزیز آباد نائن زیرو کے قریب ایک خالی گھر میں پانی کی ٹینکی سے اتنا اسلحہ گولہ بارود برآمد ہوا جسے خبروں کے مطابق تین بڑے ٹرکوں میں بھر کر تھانے پہنچایا گیا۔ بعد میں خبر آئی کہ وہ نیٹو افواج کے لیے آنے والا اسلحہ تھا جسے براستہ پاکستان افغانستان جانا تھا۔ پانی کی ٹینکی سے ٹرک بھر بھر کر اینٹی ائیر کرافٹ گننز نکلنے سے وہ مشہور مقولہ دہرالیا جائے تو بہتر ہو گا کہ قانون نافذ کرنے والے چاہیں تو کتے سے بھی اعتراف جرم کرا سکتے ہیں اور تو اور رکشے سے ہاتھی بھی برآمد ہو سکتا ہے۔ جائے وقوع سے کامیاب برآمدگی کی اس سے بڑی اور کیا مثال ہو گی۔
بات ایم کیو ایم کی ہو رہی ہے تو چلیں 1992 کے اس دور کو بھی یاد کرتے ہیں جب نواز شریف ملک کے وزیراعظم تھے اور ایم کیو ایم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے زیر عتاب تھی۔ سیاسی جماعت کے خلاف ہونے والے آپریشن پر حب الوطنی کا ٹیگ لگانا مقصود تھا سو مبینہ طور پر ایک خبر تمام اخبارات کو دی گئی کہ دوران آپریشن ایم کیو ایم کے دفاتر سے ملک توڑنے اور آزاد ریاست ’جناح پور‘ بنانے کے دستاویزی ثبوت ملے ہیں۔ جناح پور کے نقشے تک منظر عام پر لائے گئے۔ بعد میں سابق ریٹائرڈ فوجی افسران نے جناح پور کے نقشے کو ہی نقشے بازی قرار دے دیا۔ یعنی وہی ایک کہانی جو ہر بار گھڑی اور دہرائی گئی۔
تفتیشی پھر تفتیشی ہوتا ہے چاہے وہ دنیا کے کسی ملک کا ہو، اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد والے کمپاؤنڈ سے برآمد ہونے والا سامان، کتابیں، کمپیوٹرز وغیرہ کو امریکی چھاپہ مار ٹیم اپنے ساتھ لے گئی تھی، جائے وقوع سے ملنے والے مال میں جہاں اور بہت کچھ نکلا وہیں امریکی تفتیشی افسران نے دعویٰ کیا کہ کچھ الم غلم پورنوگرافی پر مبنی وڈیوز بھی ملیں ہیں۔ یعنی یہ چھاپہ مار والے برآمد کرنے پر آئیں تو دنیا کے موسٹ وانٹڈ پرسن اسامہ بن لادن سے بھی برمدگی کروائی جا سکتی ہے۔
موقع واردات سے، رنگے ہاتھوں کچھ برآمد ہو بھی جائے تو ضروری نہیں کہ کوشش بار آور ثابت ہو۔ پولیس کہتی رہی کہ علی امین گنڈا پور کی گاڑی سے بلیک لیبل کی بوتل برآمد ہوئی، بڑی خبر بنی مگر گنڈا پور نے یہ کہہ کر سب کی بولتی ہی بند کر دی کہ بوتل بھلے بلیک لیبل ہو مگر اندر خالص شہد تھا۔ اللہ جانے بوتل میں کیا تھا کیا نہیں مگر اب گنڈاپور وزیر ہیں اس لیے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ واقعی شہد ہی ہو گا۔
شرجیل انعام میمن اس حساب سے خوش قسمت ہیں کہ ان پر پڑنے والے چھاپے کی سربراہی سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کررہے تھے، وہی ہوا جس کا دھڑکا تھا۔ اسپتال میں بیمار ملزم شرجیل میمن کے کمرے سے شراب کی بوتلیں برآمد ہوئیں، یہ چھاپہ مار کارروائی وڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے لائیو دکھائی گئی۔ اس وقت تو بڑی واہ واہ ہوئی کہ لو جی شرجیل میمن بھی پھڑ لیے گئے مگر بعد میں لیب ٹیسٹ کی رپورٹ میں سامنے آیا کہ جناب بوتل تو شراب کی ہی تھی مگر ایک بوتل میں شہد ایک میں زیتون کا تیل تھا۔ یعنی ہمارے بیچارے سابقہ چیف صاحب کی ساری محنت ہی تیل ہو گئی۔ مجھے یقین ہے یہ چھاپہ اگر نیب نے مارا ہوتا تو انہیں اسپتال کے کمرے سے ایک سرنگ مل جاتی جس کے آخری سرے پر ملکی و غیر ملکی کرنسی کی گڈیاں پڑی ہوتیں۔
پنجاب کے سابق وزیر قانون اور رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ پرتازہ تازہ کیس بنا ہے، اینٹی نارکوٹکس فورس والے بتاتے ہیں کہ ناکے پر جب رانا صاحب سے منشیات بابت پوچھا گیا تو انہوں نے سوٹ کیس سے نکال کر 21 کلو منشیات سامنے رکھ دی۔ اب کیس چونکہ منشیات کا ہے تو بات منشیات پر ہی ہونی چاہیئے یہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ نجانے کیوں اسے ماڈل ٹاون سانحے پر اللہ کی پکڑ گردانتی ہیں حالانکہ سانحہ ماڈل ٹاون سے ہیروئن وغیرہ کا بظاہر کوئی تعلق بنتا نہیں۔
ویسے رانا صاحب بھی کچے چور ہی نکلے جنہیں یہ ادراک بھی نہ ہوا کہ حکومت ویسے ہی اپوزیشن کے پیچھے لٹھ مار پڑی ہے، یہ جانتے بوجھتے ملک کی مرکزی سڑک پر اپنے گارڈز کے ہمراہ ، سوٹ کیس بھر کر ہیروئن لیے نکل کھڑے ہوئے۔ایف آئی آر تو کسی کم منجھے کھلاڑی نے لکھ دی مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ رانا صاحب کے سوٹ کیس سے نکلنے والا سفید سفوف ہیروئن ہے؟ سیاسی مخالفین کے زخموں پر چھڑکنے والا نمک ؟ یا عوام کو لگنے والا چونا؟