’لیا تھامس جیسی ٹرانس تیراکوں پر پابندی غلط ہے‘

تیراکی کی عالمی تنظیم فینا کی پالیسی ایسی صورت حال پیدا کرتی ہے جہاں ٹرانس خواتین کو کبھی بھی منصفانہ مقابلے کی اجازت نہیں ملی۔

ٹرانس ویمن کی کارکردگی کے ثبوت بہت کم ہیں اور اکثر لوگ اپنی پوزیشن کو درست ثابت کرنے کے لیے لیا تھامس جیسی کامیاب ٹرانس خواتین کی واحد مثالوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

عالمی تیراکی کی گورننگ باڈی فینا نے خواجہ سرا خواتین کو ایلیٹ سوئمنگ سے روکنے کے لیے ووٹ دے دیا ہے۔ یہ پابندی کسی بھی ٹرانس عورت کو متاثر کرتی ہے سوائے اس چھوٹی تعداد کے جنہیں 12 سال کی عمر سے پہلے بلوغت کو روکنے والی دوا دی گئی تھی اور اس لیے وہ کبھی بھی بلوغت سے نہیں گزری تھیں۔

نیشنل کولیجیٹ ایتھلیٹک ایسوسی ایشن (این سی اے اے) نے یہ فیصلہ ٹرانس تیراک لیا تھامس کی حالیہ کامیابی کے جواب میں کیا، جو مردوں کی کیٹگری کو ’اوپن‘ والے زمرے سے بدل دیتا ہے، جس میں ٹرانس خواتین کو مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔

جو لوگ ان اقدامات کی حمایت کرتے ہیں وہ بعض اوقات یہ دلیل دیتے ہیں کہ کھیلوں میں ٹرانس اور سِس جینڈر خواتین کے درمیان علیحدگی افسوس ناک ہے، لیکن انصاف کے لیے ضروری ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ کارکردگی کا فرق اتنا بڑا ہے کہ ایک سِس جینڈر عورت کا کبھی بھی ٹرانس ویمن کے خلاف جیتنا ممکن نہیں ہوگا۔ اگر یہ تاثر درست ہے تو میں اس سے پوری طرح اتفاق کروں گی۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس روئنگ جیسے کھیلوں میں وزن کی کیٹگریز ہیں: یہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو مسابقتی ہونے کے قابل بناتی ہیں۔ تاہم، اس معاملے میں جن شواہد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ عام طور پر سِس جینڈر مردوں اور عورتوں کے درمیان کارکردگی کے فرق کے بارے میں ہوتا ہے اور تبدیلی کے دوران کارکردگی کے نقصان کا کوئی حساب نہیں رکھتا۔

ٹرانس ویمن کی کارکردگی کے ثبوت بہت کم ہیں اور اکثر لوگ اپنی پوزیشن کو درست ثابت کرنے کے لیے لیا تھامس جیسی کامیاب ٹرانس خواتین کی واحد مثالوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ستم ظریفی ہے کہ اس کے حالیہ نتائج حقیقت میں اس دعوے کی ایک بہترین مثال ہیں کہ ٹرانس خواتین ان مقابلوں پر حاوی ہوں گی۔ یہ سچ ہے کہ لیا تھامس نے این سی اے اے 500 یارڈ فری سٹائل فائنل جیتا، لیکن اس نے کوئی ریکارڈ قائم نہیں کیا۔ وہ کیٹی لیڈیکی کے 4:24.06 کے ریکارڈ وقت سے نو سیکنڈ پیچھے تھیں۔

درحقیقت لیا تھامس کے وقت کا 2021 کے فاتح کے ساتھ موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے این سی اے اے فائنلز جن میں انہوں نے حصہ لیا یعنی 100 اور 200 فری سٹائلز میں جن میں وہ بالترتیب آٹھویں اور پانچویں نمبر پر آئیں، ان کا اکثر ذکر نہیں کیا جاتا۔ ان نتائج سے یہ واضح ہے کہ وہ ایک باصلاحیت تیراک ہیں لیکن یہ تجویز کہ انہیں دوسرے تیراکوں پر کچھ ناقابل یقین برتری حاصل ہے، مضحکہ خیز ہے۔

فینا کا استدلال ہے کہ انہوں نے ایک ایسا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے جو ’مقابلے کے منصفانہ پن پر زور دیتا ہے۔‘ لیکن یہ تب ہی درست ہو سکتا ہے جب آپ اس بات کو نظر انداز کر دیں کہ لیا تھامس جیسی ٹرانس خواتین کو اب ان مردوں کے خلاف لڑنا پڑے گا جن کے ساتھ وہ کبھی بھی مؤثر طریقے سے مقابلہ نہیں کر سکیں گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مثال کے طور پر انہوں نے تبدیلی سے قبل 2019 میں 500 فری سٹائل کے لیے اپنا ریکارڈ قائم کیا، اس وقت کے ساتھ جو انہیں اس سال این سی اے اے کے مردوں کی چیمپیئن شپ میں ٹاپ 8 میں ڈال دیتا۔ تبدیلی کے بعد سے اور باقاعدہ تربیت کے باوجود ان کا وقت 14 سیکنڈ سے زیادہ سست ہو گیا ہے۔ اگر مردوں کے خلاف مقابلہ کرنے کی ضرورت ہوتی، تو اس سال این سی اے اے میں ان کا جیتنے کا وقت اسے انٹرمیڈیٹ (ڈویژن II) چیمپیئن شپ کے فائنل میں بھی نہیں پہنچا سکتا تھا۔

ایک ایلیٹ ایتھلیٹ لیا تھامس کے لیے کوئی بھی ایسی تجویز کہ وہ ان مردوں کے ساتھ مقابلہ کریں، جو ان سے 25 سیکنڈ زیادہ تیزی سے جیتتے ہیں بمقابلہ ان سے ایک سیکنڈ پیچھے رہنے والی خواتین سے مقابلہ کرنا، ایک مذاق ہے۔ اسے صرف یہ دلیل دے کر ہی جائز قرار دیا جا سکتا ہے کہ ٹرانس خواتین کو مسابقتی انصاف کی توقع کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

فینا کے نمائندوں کے تبصرے خود کو مبارک باد دینے سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ اس اقدام کو ’مکمل شمولیت کی طرف سائنس پر مبنی پہلا قدم‘ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ’مقابلے میں انصاف کا تحفظ کرتا ہے۔‘ لیکن یہ دعوے جھوٹے ہیں۔

اس کی بجائے، یہ پالیسی ایسی صورت حال پیدا کرتی ہے جہاں ٹرانس خواتین کو صرف علامتی مقابلہ کرنے کی اجازت ہے۔ کبھی بھی منصفانہ شمولیت کے دعوے توہین آمیز ہوتے ہیں، جب یہ پالیسی عملی طور پر ٹرانس خواتین کے لیے اشرافیہ کی سطح پر مقابلہ کرنا ناممکن بنا دیتی ہے۔

اس فیصلے کو مستقبل میں دیگر کھیلوں میں ٹرانس مخالف پالیسیوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا اور یہ کھیلوں میں ٹرانس کی شمولیت پر بحث کو زہر آلود کرتا رہے گا۔ لیکن ہم بہتری لاسکتے ہیں۔


کائلی میک فارکوارسن آکسفورڈ یونیورسٹی میں ڈی فل کی طالبہ ہیں، جو آکسفورڈ کے لیے قومی سطح پر مقابلے میں حصہ لے چکی ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل