آج سے ٹھیک 20 برس قبل پاکستان میں ایک ایسا واقعہ ہوا جسے عالمی سطح پر خبروں میں جگہ ملی۔ جنوبی پنجاب کی رہائشی مختاراں مائی کو 22 جون 2002 میں ایک پنچایت کے حکم پر حریف قبیلہ کی خاتون کے ساتھ ان کے چھوٹے بھائی کے مبینہ تعلقات کی سزا کے طور پر اجتماعی ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔
مختاراں مائی نے انڈپنڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں ماضی کے اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’آج بھی اس کے اثرات سامنے آ رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ریپ کا واقعہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں، یہ کسی ایک فرد پر نہیں بلکہ 80 سے 90 افراد پر مشتمل پنچایت کا فیصلہ تھا۔‘
مختاراں مائی اس واقعے کے بعد سماجی کارکن کے روپ میں سامنے آئیں اور انہوں نے متعدد فورمز پر پاکستان میں ریپ کے مسئلے سے آگہی اور متاثرین کی بحالی اور خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے بھرپور مہم چلائی۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ پچھلے 20 سالوں میں ریپ کے معاملے میں آگہی بڑھی ہے اور خواتین نے آواز اٹھانا شروع کر دی ہے۔
پرویز مشرف کی مختاراں مائی سے بات
مختاراں مائی نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے ان سے دو سال قبل رابطہ کیا تھا، اور رابطے کے دوران سوال کیا کہ ’کیا میں اس لیے بیمار ہوں؟‘
مختاراں مائی نے سابق فوجی صدر کے بیان سے متعلق مزید کہا کہ جو ’سب سے پہلے پاکستان کہتے تھے وہ اب کہاں ہیں؟ ہم جیسے لوگوں کا پاکستان ہوتا ہے، یہ ہمارا ملک ہے اور شان ہے۔ سب سے پہلے پاکستان والے ہیں تو اب کیوں چلے گئے ہیں؟ مختاراں مائی نے تو اس کی پیشکش ٹھکرا دی تھی، اس کے کہنے پر اسلام آباد تک نہیں گئی۔ جیسی بھی عورت ہو کبھی یہ نہیں سوچے گی کہ باہر جانے کے لیے ایسا واقعہ کروائے۔‘
ماضی میں مختاراں مائی سے زیادتی کے بعد سابق فوجی صدر نے ویزا لینے/باہر جانے کے لیے زیادتی کا الزام لگا کر تمام مقاصد حاصل کرنے سے متعلق ایک بیان دیا تھا جس بیان پر پرویز مشرف پر خاصی تنقید ہوتی رہی۔
’مجھے آج بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں‘
مختاراں مائی کا کہنا ہے انہیں آج بھی دھمکیاں مل رہی ہیں، ایک دن ایک واٹس ایپ گروپ میں آڈیو شئیر کی گئی، ان کے شوہر بھی اس واٹس ایپ گروپ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے وہ آڈیو ان کے ساتھ شیئر کی جبکہ تھوڑی ہی دیر بعد ایک صحافی نے بھی وہ آڈیو انہیں بھیجی۔
انہوں نے بتایا ہے کہ آدھے گھنٹے پر مشتمل مبینہ آڈیو میں ان سے اجتماعی زیادتی میں ملوث ایک ملزم فیض مستوئی کے رشتہ دار شبیرمستوئی اور مقامی یوٹیوبر صحافی منصوبہ بناتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ’مختاراں کو دوبارہ برہنہ کریں گے۔‘
مختاراں نے کہا کہ آڈیو سننے کے بعد انہوں نے اسے متعلقہ ایس ایچ او تھانہ جتوئی کو بھیجی اور کہا کہ ’اگر اس پر کوئی کاروائی بنتی ہے تو مجھے بتا دیں۔‘
ایس ایچ او سے جواب نہ ملنے پر انہوں نے وہ آڈیو ڈی ایس پی کو بھیجی جس کا انہوں نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
مختاراں نے بتایا کہ اس کے بعد انہوں نے انسانی حقوق کمیشن کی نمائندہ طاہرہ سید سے رابطہ کیا اور درخواست دے دی، جس کے بعد انہیں ڈی آئی جی نے بلوایا۔ انہوں نے بتایا کہ ’یہ ہمارا کیس ہی نہیں بنتا، آپ لاہور درخواست دیں۔‘
لاہور میں طاہرہ سید کے ذریعہ درخواست دینے کے بعد مختاراں مائی کو بتایا گیا کہ ’ہمارے پاس بہت سی درخواستیں ہیں، جب باری آئے گی تو بتائیں گے۔‘
مختاراں بتاتی ہیں کہ ’اس واقعہ کو چھ ماہ ہو چکے ہیں لیکن تاحال اس معاملہ میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔‘
’روز روز کے مرنے سے ایک دفعہ مر جاتی‘
پولیس کے ریپ کی متاثرہ خواتین کے ساتھ رویہ سے متعلق مختاراں مائی کہتی ہیں کہ خواتین پولیس کے رویے کے باعث پولیس کے پاس جانے سے پہلے 100 دفعہ سوچتی ہیں۔
مختاراں نے کہا ہے کہ عدالت میں خواتین سے مخالف پارٹی کے وکیل کی جانب سے کیے جانے والے سوال انتہائی تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ ’عورت یہی سوچتی ہے کہ روز روز کے مرنے سے ایک دفعہ مر جاتی تو بہتر تھا، یہ عمل خواتین کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔‘
انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر کے اندراج میں غلطی ثابت ہونے پر کیا کسی پولیس والے کو کبھی سزا ملنے کا سنا ہے؟ ’اس شخص کو وقتی طور پر پر معطل کیا جاتا ہے۔ کچھ روز بعد وہی شخص واپس آ جاتا ہے۔‘
خواتین کو درپیش مسائل سے متعلق مختاراں مائی نے کہا کہ ان مسائل کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ’عدالتوں میں ایسے معاملات کو کوئی سنجیدہ نہیں لیتا بلکہ ایسے معاملات میں لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں۔ یہ مردوں کا معاشرہ ہے، قانون لکھنے والے بھی مرد ہیں اور قانون دینے والے بھی مرد ہیں۔‘
اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
وزارت انسانی حقوق کی جانب سے دیے گئے دستاویزات کے مطابق ملک میں سال 2018 سے لے کر دسمبر 2021 تک 14 ہزار سے زائد ریپ کے کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ واقعات صوبہ پنجاب میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
حال ہی میں پنجاب حکومت نے بڑھتے کیسز کی روک تھام کے پیش نظر صوبے بھر میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا بیان بھی سامنے آیا ہے۔
صوبائی وزیر عطا اللہ تارڑ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’پنجاب میں انتظامیہ کو جنسی زیادتی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی کا اعلان مجبوری میں کیا گیا ہے، پنجاب میں روزانہ چار سے پانچ ریپ اور ہراسانی کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔‘
صوبہ سندھ میں گذشتہ پانچ سالوں میں جنسی زیادتی کے 1772 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں 235 کیسز رپورٹ کیے گئے۔
’ایک عورت 17 سال تک انصاف کا انتظار کرتی رہے، پھر بھی انصاف نہ ملے‘
ریپ کے واقعات سے متعلق مختاراں مائی کہتی ہیں کہ ’زیادتی کے واقعات پہلے بھی ہوتے تھے لیکن انہیں چھپا دیا جاتا تھا مگر اب لوگوں میں آگاہی آ چکی ہے۔ ایسے واقعات کے بڑھنے کی وجہ انصاف کا نہ ہونا بھی ہے کیونکہ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے طاقتور طاقتور اور مظلوم مظلوم ہی رہ جاتا ہے۔‘
مختاراں نے کہا ہے کہ ’انصاف کی فراہمی سے ہی زیادتی کے واقعات میں کمی آئے گی۔ جب ایک عورت 17 سال تک انصاف کا انتظار کرتی رہے، پھر بھی انصاف نہ ملے تو ایسا کیسے ممکن ہوگا؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے پولیس کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ’پولیس کو خواتین کے حقوق کا پتہ نہیں ہے۔‘
مختاراں مائی آج کل کیا کر رہی ہیں؟
مختاراں مائی نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ انہوں نے 18 سال سکول چلائے اور وہ اب تک تین سکول بنا کر حکومت کو عطیہ کر چکی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ کرونا کی وبا کے اوائل میں جب عطیات کی کمی کے پیش نظر جب سکول چلانا مشکل ہو گیا تو انہوں نے تیسرا سکول بھی حکومت کے حوالے کر دیا۔ وہ اب دوبارہ ایک سکول بنانے کا سوچ رہی ہیں۔
مختاراں مائی کہتی ہیں کہ ’میرے بچے بھی کہتے ہیں کہ سکول بنا کر حکومت کو دے دیتی ہوں۔ میں بھی یہی کہتی ہوں کہ سکول تا حیات چلتا رہے۔‘
مختاراں مائی ایک سماجی کارکن کے طور پر بھی کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے گاوں میر والا میں ایک تنظیم چلا رہی ہیں جس کا کام خواتین کو پناہ دینا اور انہیں قانونی حقوق دلوانا ہے۔
لڑکوں کی پسند کی شادی ٹھیک جبکہ لڑکیوں کی غلط؟
ان کے مطابق ان کی تنظیم میں آنے والے کیسز سے متعلق مختاراں کہتی ہیں کہ ان کے پاس آنے والے زیادہ تر کیسز میں پولیس تعاون نہیں کر رہی ہوتی اور ایسے بیشتر کیسز کا تعلق دیہات سے ہوتا ہے۔
انہوں نے عزت کو زیادتی کے ساتھ جوڑنے کی باتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت لوگوں کی عزت کہاں جاتی ہے جب خواتین کو کاروکاری کیا جاتا ہے؟ آج بھی کاروکاری کے واقعات ہو رہے ہیں۔ ’اپنے لوگوں نے مجھے ایک بیٹے کی بھینٹ چڑھا دیا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ آج بھی بیٹے کی پسند کی شادی کو “ٹھیک” جبکہ بیٹی کی گئی پسند کی شادی کو ’گناہ‘ کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
کیا پچھلے 20 سالوں میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟
مختاراں مائی نے انڈپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے 20 سالوں میں خواتین اب بولنا اور آواز اٹھانا شروع ہو گئی ہیں۔ اب پہلے سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، پہلے ریپ کے معاملہ کو اٹھانا آنا کا مسئلہ سمجھا جاتا تھا کہ ہماری ’عزت خراب ہو جائے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ کہتی ہیں کہ سب سے بہترین بات یہ ہے کہ لوگ اب اپنا حق مانگنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان کے مطابق جو والدین پہلے بچوں کو نہیں پڑھانا چاہتے تھے وہ اب انہیں پڑھانا چاہتے ہیں۔ اتنا فرق آیا ہے کہ وڈیرے اب اپنے فیصلے ڈیروں پر نہیں تھانوں پر کرتے ہیں کیونکہ ’تھانے ان افراد کے ماتحت ہوتے ہیں۔‘
مختاراں نے مزید کہا ہے کہ ’اگر انسان مشن بنا لے کہ اپنے لیے نہیں اپنی آنے والی نسل کے لیے لڑنا، آواز اٹھانی اور اسے مضبوط کرنا ہے تو پھر انسان کو تھوڑا سہارا مل جاتا ہے۔ اسی سوچ سے انسان زندہ رہ سکتا ہے ورنہ نہیں۔‘
اپنے بچوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کے تین بچے ہیں۔ بڑی بیٹی دسویں جماعت، دوسری ساتویں جبکہ بیٹا پانچویں جماعت میں زیر تعلیم ہے۔
بیرون ملک شفٹ نہ ہونے کے فیصلے پر مختاراں کہتی ہیں ‘میرا مقصد یہاں پر رہ کر کام کرنا تھا، کام نہ کرتی تو ان کا گاوں میر والا کیسے پہچانا جاتا؟‘