فیصل آباد میں زرعی یونیورسٹی اور بین الاقوامی گوٹ اینڈ بلز ایسوسی ایشن کے اشتراک سے قربانی کے جانوروں کے وزن اور خوبصورتی کے مقابے کا انعقاد کیا گیا۔
اس سلسلے میں 22 جون کو اونٹوں اور ترکی دنبوں کی خوبصورتی اور وزن کے مقابلے ہوئے جبکہ 24 جون کو بکروں، کجلے چھتروں، خالص ٹیڈی بکروں اور مخلوط نسل کے ٹیڈی بکروں کے الگ الگ کیٹگری میں خصوبصورتی اور وزن کے مقابلے ہوئے۔
انٹرنیشنل گوٹ اینڈ بلز ایسوسی ایشن کے بانی چیئرمین عطا محمد گجر نے انڈیپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گذشتہ 24 برس سے ہر سال عید الاضحی سے قبل قربانی کے جانوروں کے وزن اور خوبصورتی کے مقابلے کرواتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اونٹوں کا، بچھڑوں کا، چھتروں کا، ترکی دنبے، بکروں کا خوبصورتی کا اور وزن کا مقابلہ ہوتا ہے جس میں حصہ لینے کے لئے پاکستان بھر سے ہزاروں افراد اپنے جانوروں کو لے کر آتے ہیں۔‘
عطا محمد کے مطابق اس سال بکروں کے وزن کا مقابلہ جیتنے والے بکرے ’بازی گر‘ کا وزن 327 کلو گرام ہوا ہے اور اس نے دنیا کا سب سے زیادہ وزنی بکرا ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے بھی یہ اعزاز پاکستان کے ہی ایک بکرے کے پاس تھا جس نے 2021 کے مقابلے میں 314 کلوگرام وزن کے ساتھ یہ اعزاز اپنے نام کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سال گوجرانوالہ کے رہائشی فرخ اعجاز نے مقابلہ جیتا ہے اور ان کے بکرے ’بازی گر‘ کا 327 کلو گرام وزن ہوا ہے۔
دوسری پوزیشن بھی فرخ اعجاز کے بکرے ’انمول‘ نے حاصل کی جس کا وزن 296 کلو گرام ہے جبکہ تیسرے نمبر پر ملتان کے راشد کا بکرا ’لال بادشاہ‘ رہا جس کا وزن 276 کلو گرام ہے۔
عطا محمد نے بتایا کہ خوبصورتی کی کیٹیگری میں جتنے بھی انعاما ت دیے گئے ہیں وہ زرعی یونیورسٹی کے ماہرین کی مشاورت سے دیے گئے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’وزن کی کیٹگری میں لائل پوری نسل کا بکرا ہی سب سے زیادہ وزن کرتا ہے۔ خوبصورتی میں راجن پوری یا دوسری نسل کے بکرے ہوتے ہیں لیکن وزن کی کیٹگری میں اس )لائلپوری نسل(کے علاوہ کوئی نسل نہیں ہوتی ہے۔‘
دنیا کے سب سے وزنی بکرے کا اعزاز حاصل کرنے والے بکرے ’بازی گر‘ کے مالک فرخ اعجاز نے انڈیپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنے بکروں کو عام چارے کے ساتھ ساتھ دودھ، دہی، مکھن، دیسی گھی، گندم اور چنے کھلاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ ہرسال اس مقابلے میں حصہ لینے کے لئے بکرے تیار کرتے ہیں اور پھر انہیں کسی کو فروخت کرنے کی بجائے خود قربان کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’سات سال سے میں اس مقابلے میں حصہ لے رہا ہوں۔ تین سال رنراپ رہا ہوں اور چار سال سے جیت رہا ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مقابلے میں دور دور سے لوگ آتے ہیں اور قربانی کے جانوروں کے وزن اور خوبصورتی کو دیکھ کر ان میں بھی یہ شوق پیدا ہوتا ہے۔