پونا گھنٹہ لگا کے آپ کی دوست نے میک اپ کیا اور آپ سے پوچھا 'کیسی لگ رہی ہوں؟' جواب ملا 'یار تھوڑا اوور ہو گیا ہے۔'
اگلی بندی سڑ کے سواہ ہو جائے گی اور وقت فرض کیا کم ہے تو وہ آپ کے مشورے پہ لات مار کے فنکشن میں پہنچے گی تو ضرور لیکن سارا وقت اسے اندر سے یہ خیال کھا جائے گا کہ بھئی میک اپ زیادہ کیا ہوا ہے، پتہ نہیں لوگ جاہل جپٹ نہ سمجھ لیں۔ وہ سیلفیاں اچھی بنا سکے گی نہ کوئی دوسری گروپ فوٹوز، زیادہ ملے جلے گی بھی نہیں لوگوں سے اور واپسی پہ سردرد کے ساتھ گھر لوٹے گی۔
کیسی لگ رہی ہوں ۔۔۔ یہ بے ضرر قسم کے سوال آپ کی جینوئن عالمانہ تنقیدی رائے جاننے کے لیے نہیں کیے جاتے اور ان کے جواب میں بہت زیادہ سچ بولنا تو کبھی بھی ضروری نہیں ہوتا۔
باپ ہیں، ماں ہیں، بھائی، بہن، شوہر، بیوی، دوست، کولیگ، کلاس فیلو، آپ کسی بھی درجے پہ ہیں اور آپ کے سامنے آئندہ کبھی کوئی فیصلہ ہو جانے کے بعد سوال آئے تو کوشش کریں کہ اگلے بندے کو مفتو مفتی ٹینشن نہ کرائیں۔
بھائی کی شادی ہے، حسب معمول ایک دن پہلے سوٹ سل کے آیا ہے، آپ کو لگ رہا ہے کہ آستین تھوڑی سی لمبی ہے، اتنی ہوتی کہ نیچے سے شرٹ کا پون انچ کف نظر آتا رہتا تو کیا بات ہوتی! باقی فٹنگ اے ون ہے، کندھے بیٹھے ہوئے ہیں، کمر وی شیپ بن رہی ہے، استر اچھے کنٹراسٹ کا ہے ۔۔۔ وہ رائے لینا چاہے گا، پوچھے گا کہ بھائی کیسا لگ رہا ہوں، آپ ساری اچھائیاں اڑا کے وہیں گول کریں گے جو واحد پون انچ کی خرابی رہ گئی ہے۔ ’بیٹا آستین تھوڑی لمبی ہے کوٹ کی۔‘
اس کی شادی بھنگ ہو جائے گی، وہ غریب چھتیس زاویوں سے پورا دن خود کو مطمئن کرتا رہے گا، فوٹو شوٹ میں کوٹ کی آستینیں چڑھائے گا، آپ کے ایک جملے سے اتنی ٹینشن جو پھیلی، کیا خوشی ملی بھئی؟
ہم لوگ کیوں سمجھتے ہیں کہ ہماری سچی اور ماہرانہ رائے واقعی اتنی اہم ہے؟ یا ہم اس چیز کا بدلہ لے رہے ہوتے ہیں کہ پہلے ہم سے کیوں نہیں پوچھا تھا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم لوگ اندر سے احساس کمتری کا شکار ہیں اور اگلے بندے کے اچھے لمحوں سے جلتے ہوئے اس کا بینڈ بجانا چاہتے ہیں؟
نیا گھر بنا لیا کسی رشتے دار نے، آپ کو بلایا، آپ پہنچے، پانی پیا، ساتھ ہی پروگرام شروع ’استاد روشنی ٹھیک نہیں آتی یار اندر، ہوا کا بھی مسئلہ لگ رہا ہے، کراس وینٹیلیشن کے لیے کروایا کچھ آپ نے؟‘ کھانا کھانے کے بعد آپ کو گرمی لگنا شروع ہو جائے گی، پھر اس طرح کے سوال ہوں گے ’یار وہ دیواروں میں فوم کی شیٹ رکھوانی تھی، اس سے گرمی بڑی اچھی نکل جاتی ہے۔‘ اگلا بے چارہ چپ کر کے جیسا تیسا کوئی جواب دے گا اور ساری عمر آپ کی باتیں سوچتا رہے گا۔ وہ کوئی رئیس ہے کہ دوبارہ گھر بنوائے تو آپ والے قیمتی مشورے دیواروں اور سر آنکھوں پہ رکھے نہ وہ بنا بنایا گھر تڑوا کے نقشہ آپ سے بنوا سکتا ہے، تو پھر کیوں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صرف یہ نہیں کہہ سکتے آپ کہ ’خدا رہنا نصیب کرے بھائی۔‘ پیٹ میں درد کیوں ہوتا ہے جب تک اگلے کی خوشی ملیامیٹ نہ ہو جائے؟ اور اس کیس میں تو اگلے نے آپ کی ماہرانہ رائے مانگی بھی نہیں تھی!
آن لائن کسی نے کچھ منگا لیا، آپ کو دکھایا، آپ نے چھوٹتے ساتھ بول دیا، ’بہت مہنگا لیا بہن، ادھر اتوار بازار میں سیم یہی چیز دو سو روپے کی مل رہی تھی۔ ’بہن‘ نے اب کیا اتوار بازار دوبارہ جانا ہے دو سو میں یہی چیز پھر سے خریدنے کے لیے یا ادھر جو بیچ رہا تھا وہ دکاندار آپ کا واقف ہے؟ اور کیا آپ نے سو فیصد یقین سے کہا بھی ہے یہ سب؟ کیا واقعی بالکل آن لائن جیسی کوالٹی تھی؟ کیا آپ نے ہاتھ لگا کے دیکھا تھا؟‘
اسے سادہ ترین زبان میں انتقام پسندی کہتے ہیں۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اپنی تسلی کے لیے اسے سچ بولنا یا ایماندارانہ رائے کا اظہار کرنا کہتے ہیں۔ یہ عادت عموماً ان مہربانوں میں پائی جاتی ہے جو قدرت کی طرف سے کسی محرومی کا شکار رہ گئے ہوں۔
جو ان کا شکار ہوتے ہیں وہ ہم آپ جیسے عام تام بندے ہوتے ہیں۔ جتنے لوگ اس وقت یہ تحریر دیکھ رہے ہیں ان میں سے ہر کوئی یہی سوچ رہا ہو گا کہ ہم نے تو کبھی ایسا کام نہیں کیا وہ فلانا ڈیش کا ڈیش، وہ ہمیشہ یہی کرتا ہے، وہ آنٹی کونے والی، وہ تو سدا کی ایسی ہیں۔
غور کیجیے گا کبھی کسی کے لیے وہ ڈیش کے ڈیش شاید آپ بھی بنے ہوں؟ کسی بے چاری کے لیے وہ کونے والی آنٹی کا رول آپ نے بھی ادا کیا ہو؟
’نہیں نہیں بھئی، توبہ ہے، ہم کیوں کریں گے ایسا، ہم تو سب کی خوشیوں میں خوش ہوتے ہیں، اللہ کا شکر ہے۔‘ ایسے سوالوں کا پھر یہ والا جواب دے کر ہم لوگ دوبارہ اپنی زندگیوں میں گم اور دوسروں کی خوشیاں تیل کرنے میں سرگرم ہو جاتے ہیں۔