سندھ کے ایک غریب محلے سے تعلق رکھنے والی پروین شیخ نے سندھ کی حکمراں جماعت کے امیدوار کو شکست دے کر سب کو حیران کر دیا ہے۔
26 جون کو پروین شیخ کو 430 ووٹ ملے جبکہ رنر اپ منتھر شیخ کو 190 ووٹ ملے تھے۔
گذشتہ ماہ جب پروین شیخ نے سندھ میں اپنے محلے سلیم آباد سے مقامی حکومت کے انتخابات لڑنے کے بارے میں بتایا تو ان کے خاندان اور برادری والوں نے مخالفت کی اور مزاق اڑایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک غریب عورت کے ایسے علاقے میں انتخابات جیتنے کے کتنے فیصد امکانات ہیں جہاں خواتین شاذونادر ہی الیکشن لڑتی اور بہت کم تعداد میں ووٹ ڈالتی ہیں؟
تاہم چھ بچوں کی والدہ 15 مئی کو اکیلے اپنے آبائی شہر خیر پور کے الیکشن دفتر گئیں اور میونسپل کمیٹی کی نشست کے لیے آزاد امیدوار کے طور پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔
سندھ کے 14 اضلاع میں بلدیاتی اداروں کی سات ہزار164 نشستوں کے لیے 26 جون کو ہونے والے انتخابات میں تقریبا 24 ہزار500 امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔
پروین شیخ نے عرب نیوز کو ٹیلی فون پر دیے جانے والے ایک انٹرویو میں بتایا کہ میں نے لچک کا مظاہرہ کیا، کسی سے نہیں پوچھا اور صرف اپنے نامزدگی کے فارم جمع کرائے۔
اس نو منتخب کونسلر کو ایک اور خاتون شہناز شیخ کی حمایت حاصل تھی جس کی سرپرستی میں شیخ گذشتہ تین سالوں سے چھوٹے کمیونٹی ویلفیئر پروجیکٹس پر کام کر رہی تھیں۔
پروین شیخ نے اپنی اس استاد کے بارے میں کہا: ’میڈم شہناز شیخ نے مجھ سے کہا، اگر آپ انتخاب لڑنا چاہتی ہیں تو ثابت قدم رہیں۔ انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی۔‘
شہناز شیخ غریب مزدوروں کو ان کی بیٹیوں کی شادیوں کے انتظام میں مالی مدد کرتی ہیں، انہیں چھوٹے کاروبار شروع کرنے میں مدد کرتی ہیں اور غریب علاقوں میں پانی کی فراہمی کے لیے پائپ لائنیں بچھواتی ہیں۔
یہ شہناز ہی تھیں جنہوں نے پروین شیخ کو اپنی انتخابی مہم ڈیزائن کرنے اور برادری کی حمایت حاصل کرنے میں مدد کی۔
پرین نے کہا: ’جب میں اپنے لوگوں کے پاس جاتی تھی، ان کے گھر جاتی تو وہ کہتے کہ آپ ہماری بیٹی ہو۔ ہم آپ کو ووٹ دیں گے، جاگیرداروں کو مزید نہیں دیں گے۔‘
پروین شیخ نے کہا: ’جب میرے شوہر اور بھائی نے دیکھا کہ مجھے لوگوں کی طرف سے بے پناہ عزت مل رہی ہے تو انہوں نے بھی میری حمایت کی۔ ہمارے مزدور اور خواتین میری مدد کے لیے آئے اور رات دو بجے تک میرے ساتھ گھر گھر مہم چلائی۔‘
پروین شیخ، جو وفاقی محکمہ انکم ٹیکس میں کانسٹیبل کی اہلیہ اور گدھا گاڑی پر کھانا اور کھلونے فروخت کرنے والے کی بیٹی ہیں، نے بتایا کہ ان کے آبائی شہر میں بجلی، پانی یا سیوریج کا کوئی نظام نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اپنی غریب کمیونٹی کے مسائل کو حل کرنا اب ان کی اولین ترجیح ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا ہے:’میں پرائمری [پانچویں جماعت] سے آگے نہیں پڑھ سکی، کیوں کہ ہم اس کے متحمل نہیں تھے۔ میرے نو بہن بھائیوں میں سے کسی نے بھی تعلیم حاصل نہیں کی، وہ پیٹ پالنے کے لیے ایک ریڑھی پر کپڑے فروخت کرتے تھے۔
’میری بڑی بیٹی سمن شیخ اور دیگر بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں کیوں کہ میں تعلیم کی اہمیت جانتی ہوں۔ ایک کونسلر کی حیثیت سے میں خواتین کی تعلیم کے لیے کام کروں گی اور لوگوں کو پینے کا پانی فراہم کروں گی۔‘
اس علاقے کے’الیکٹ ایبلز‘ یا پرانے سیاست دانوں کے نام اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ انہیں یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ لوگ اب جاگیرداروں کی حکومت نہیں چاہتے اور اب وقت آگیا ہے کہ وہ عوام کے مطالبات کے مطابق ’اپنی ذہنیت تبدیل‘ کریں۔
انہوں نے کہا کہ ’غریبوں کو کمتر نہ سمجھیں۔ جب آپ غریبوں کا احترام کرتے ہیں تو اس سے آپ کی عزت کم نہیں ہوتی بلکہ آپ لوگوں کی نظر میں زیادہ قابل احترام ہوتے ہیں۔‘
پروین شیخ نے کہا کہ ان کی جیت نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ جیتنے کے لیے کسی کو بھی کسی بڑی سیاسی جماعت کی حمایت یا فنڈنگ کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب میں جیتی تو میں رو رہی تھی اور میرے والد بھی رو رہے تھے کیوں کہ یہ ناقابل یقین تھا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے پاس دیگر خواتین کے لیے کوئی پیغام ہے تو شیخ نے کہا کہ ’بنیادی چیز آپ کی روح ہے، جو ہمیشہ اچھی رہنی چاہیے اور جب لوگ آپ کے ساتھ ہوں تو کوئی آپ کو شکست نہیں دے سکتا۔‘