پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ میں بلدیاتی حکومتوں کی مدت ختم ہوئے 20 مہینے گزر چکے ہیں لیکن بلدیاتی قانون کے حوالے سے ہونے والے تنازعے کے بعد مستقبل قریب میں دوبارہ الیکشن ہوتے نظر نہیں آتے۔
سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری ہوچکا ہے، جس کے تحت صوبے کے 14 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات 26 جون اور دوسرے مرحلے میں 16 اضلاع میں 24 جولائی کو ہوں گے۔
تاہم سندھ کی اپوزیشن جماعتوں نے بلدیاتی نظام کے قانون پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے ترمیم ہونے تک بلدیاتی انتخابات نہ کروانے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
اس مطالبے کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس بار الیکشن ملتوی ہوئے تو دوبارہ الیکشن 2024 سے پہلے ہونا ممکن نہیں۔
اپوزیشن کا اعتراض کیا؟
سندھ حکومت نے کچھ عرصہ قبل بلدیاتی نظام کے قانون 2013 میں ترمیم کی تھی، جس پر حزب اختلاف کی جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل اور جماعت اسلامی نے اعتراضات اٹھاتے ہوئے عدالت میں علیحدہ علیحدہ پٹیشنز دائر کیں۔
ان پٹیشنز میں سپریم کورٹ آف پاکستان سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کی شق 74 اور 75 کو کالعدم قرار دینے کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کو تمام قوانین کی آرٹیکل 140 اے سے ہم آہنگی یقینی بنانے اور بلدیاتی اداروں کو خود مختار بنانے کا فیصلہ بھی دی چکی ہے۔
تاہم اپوزیشن جماعتیں سندھ حکومت پر الزام عائد کرتی رہیں کہ سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اور بلدیاتی الیکشن کا اعلان کردیا گیا۔
مزید پڑھیے: کیا سندھ میں بلدیاتی انتخابات جولائی سے پہلے ممکن نہیں؟
اپوزیشن کے اعتراض کے بعد صوبائی وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ کی سربراہی میں ایک 23 رکنی کمیٹی بنائی گئی، جس میں 13 حکومتی ارکان، اپوزیشن جماعتوں کے نو ارکان اور چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے بلدیات شامل تھے۔
23 فروری کو بنائی گئی اس کمیٹی نے تمام جماعتوں سے مشورہ کرکے ایک ہفتے کے اندر ایک جامع رپورٹ سندھ اسمبلی کو بھیجنی تھی، مگر اس کمیٹی کا اجلاس 80 دن تک ہو نہ سکا۔
بعدازاں 27 مئی کو ہونے والے اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ طور پر کہا کہ جب تک قانون میں تبدیلی نہیں کی جاتی، سندھ حکومت کی جانب سے کی گئی حلقہ بندیاں ختم نہیں کی جاتیں اور بلدیاتی نظام کو خودمختار نہیں بنایا جاتا، تب تک بلدیاتی انتخابات نہ کروائے جائیں۔ صرف جماعت اسلامی نے اعتراضی نوٹ لکھا تھا کہ الیکشن ہونے چاہییں۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب 27 مئی کو ہونے والی کمیٹی کی میٹنگ کے منٹس کے مطابق سندھ حکومت اور پارلیمانی جماعتوں نے بلدیاتی الیکشن روکنے کی درخواست کی، جسے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو ارسال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ وہ صوبے میں بلدیاتی الیکشن رکوانے کے لیے ہائی کورٹ میں جواب جمع کروا سکیں۔
کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ ’سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد تاحکم ثانی روک دیا جائے کیونکہ موثر اور بااختیار بلدیاتی قانون بننے تک بلدیاتی الیکشن کا انعقاد بےمعنی ہوگا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کمیٹی میں شامل پاکستان تحریک انصاف اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) نے بھی الیکشن ملتوی کرنے کی تجویز کی حمایت کی ہے جبکہ ایم کیو ایم پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 140 اے کے تحت بلدیاتی قانون بننے تک بلدیاتی الیکشن کے التوا کا مطالبہ کیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار الحسن نے تصدیق کی کہ سندھ اسمبلی کی کمیٹی نے صوبے میں بلدیاتی قانون میں ترمیم نہ ہونے تک بلدیاتی الیکشن نہ کروانے کی سفارش کی ہے۔
خواجہ اظہار الحسن کے مطابق: ’سپریم کورٹ آف پاکستان بھی حلقہ بندیوں پر فیصلہ دے چکی ہے، بلدیاتی اداروں کو جب تک خودمختار نہیں بنایا جاتا تب تک کیسے الیکشن کروائے جاسکتے ہیں۔ قوانین میں ترامیم کے خلاف جماعت اسلامی، فنکشنل لیگ اور دیگر جماعتیں عدالت میں پٹیشن دائر کرچکی ہیں۔‘
اس سوال پر کہ اگر اس بار الیکشن ملتوی ہوگئے تو دوبارہ کب ہوں گے؟ خواجہ اظہار الحسن نے کہا: ’قانون کے تحت دوبارہ الیکشن چھ مہینے میں کروانا ضروری ہے۔‘
اسی طرح پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی اور سابق پارلیمانی لیڈر فردوس شمیم نقوی کہتے ہیں کہ جب تک حلقہ بندیاں درست نہ کی جائیں اور بلدیاتی نظام کو مضبوط نہ کیا جائے تب تک الیکشن کو ملتوی کیا جانا چاہیے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں فردوس شمیم نقوی نے کہا: ’سندھ حکومت بلدیاتی نظام کے تمام ادارے خود چلا رہی ہے۔ حتیٰ کہ کچرا چننے والا کام مقامی سطح کا ہے، وہ بھی صوبائی حکومت کرے گی؟ قانون میں صاف بتایا جائے کہ میئر کے اختیار میں ٹاؤن ہوں گے یا ضلعے؟ میئر کا الیکشن براہ راست ہونا چاہیے اور حلقہ بندیوں کو ٹھیک کروانا ضروری ہے، ورنہ الیکشن کروانے کا فائدہ ہی نہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے: سپریم کورٹ: سندھ بلدیاتی الیکشن ترمیمی قانون کی دو شقیں کالعدم قرار
دوسری جانب صوبے کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ بلدیاتی الیکشن اپنے وقت پر ہوں۔
پیپلز پارٹی رہنما اور صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا: ’الیکشن منعقد کروانا یا ملتوی کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔ یہ کام الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ہے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ الیکشن مقررہ وقت پر ہی ہوں کیونکہ بلدیاتی الیکشن کروانے میں پہلے ہی دیر ہوگئی ہے۔‘
بقول سعید غنی: ’سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں سندھ کے بلدیاتی قانون کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا تھا، صرف اس میں کچھ ترامیم کرنے کو کہا تھا۔ اس پر ہم نے عمل کیا ہے۔ اپوزیشن اگر الیکشن ملتوی کروانا چاہتی ہے تو یہ ان کی مرضی ہے۔‘
تجزیہ نگار اور سندھ کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی عبدالجبار ناصر کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان کافی عرصے تک وفاق کا حصہ رہنے کے باوجود کراچی میں کوئی خاطر خواہ کام نہیں کروا سکی اور یہی حال پی ٹی آئی کا ہے کہ وفاق میں حکومت ہونے کے باوجود وہ کراچی میں کوئی کام نہیں کروا سکے، اس لیے دونوں جماعتیں چاہتی ہیں کہ الیکشن ملتوی ہوجائیں۔
عبدالجبار ناصر نے کہا: ’اگر اب سندھ میں بلدیاتی الیکشن ملتوی ہوجاتے ہیں تو پھر یہ الیکشن 2024 سے پہلے دوبارہ ہونا ممکن نہیں ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’اگر ابھی اپوزیشن جماعتوں کے مطالبات پر عمل کیا جاتا ہے اور ہنگامی بنیادوں پر قانون سازی کی جاتی ہے تو صرف قانون سازی میں ہی تین مہینے لگ سکتے ہیں اور ایک مہینہ ان سفارشات کو الیکشن کمیشن کے پاس بھیجنے میں لگے گا۔ اسی طرح چار سے پانچ مہینے حلقہ بندیوں میں لگیں گے اور اس کے بعد انتخابی شیڈول جاری کرنے میں مزید دو مہینے لگ جائیں گے۔‘
بقول عبدالجبار ناصر: ’اس طرح 10، 11 مہینے لگ جائیں گے اور عام انتخابات کا وقت آجائے گا، جس کے دوران بلدیاتی الیکشن کروانا ممکن نہیں۔ عام اتنخابات کے بعد بھی اگر سندھ میں بلدیاتی الیکشن ہوئے تو بھی 2024 ہی میں ممکن ہیں، اس سے پہلے یہ ممکن ہی نہیں۔‘