پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ہفتے کو ایک بار پھر جلسے کا مقام پریڈ گراؤنڈ ہی چنا، جہاں انہوں نے پہلی بار امریکہ کے سفیر کا مبینہ ’سازشی‘ خط لہرایا تھا، مگر اس بار جو بدانتظامی دیکھنے میں آئی وہ شاید اس سے قبل نہ تھی۔
مقام وہی تھا، تقریر میں بھی امریکہ کا ذکر رہا لیکن پنڈال میں لوگوں کی وہ تعداد دیکھنے کو نہیں ملی جو رواں سال مارچ کے مہینے میں اسی مقام پر نظر آئی تھی۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان خود ریلی کی قیادت کرتے ہوئے جلسہ گاہ پہنچے تو پنڈال میں موجود کارکنان نے نعرے لگائے جبکہ کئی کارکنان پارٹی بیانیے کے مطابق ’نیوٹرل نیوٹرل‘ کہتے دکھائی دیئے۔
سات بجے کے قریب باقی رہنما بھی پہنچنا شروع ہو گئے اور سینیٹر فیصل جاوید نے سٹیج سیکریٹری کے فرائض سنبھال لیے۔
جب جلسے کا سماں بننے لگا تو ہم نے خواتین کے انکلوژر کا رخ کیا، جہاں کئی خواتین اور بچوں نے بینرز اٹھا رکھے تھے، جس میں سے ایک پر لکھا تھا: ’خان، عافیہ کو کب لاؤ گے؟‘
سپورٹرز نے ایک ہاتھ میں بینرز تھام رکھے تھے جبکہ دوسرے میں پی ٹی آئی کے جھنڈے اٹھائے ہوئے نظر آئے۔
فیملی انکلوژر میں کئی فیملیز بھی موجود تھیں، ان میں کچھ سابق فوجی افسران بھی اپنی فیملیز کے ساتھ آئے ہوئے تھے، جن کا کہنا تھا: ’عمران خان اس دور کی ضرورت ہیں۔ ان کے علاوہ اور کوئی رہنما اس ملک کو چلا نہیں سکتا۔‘
وہیں موجود ایک صاحب نے کہا: ’اس ملک میں سب کسی نہ کسی کی مدد سے آتے ہیں۔ پچھلے دو الیکشن بھی ان کی مدد سے ہوئے لیکن مدد سے اچھے لوگ لانے چاہییں۔ سب کو پتہ ہے اقتدار میں خود سے نہیں آ سکتے، اقتدار میں لایا جاتا ہے۔ ‘
اسی انکلوژر میں ایک لڑکی نے ’نیوٹرل انکل آپ کب سے ان چوروں غداروں کے ساتھ مل گئے‘ کا بینر اٹھا رکھا تھا۔ جب ان سے اس جملے کا مطلب پوچھا تو انہوں نے جواب دیا: ’یہ وہی چیز ہے جس کا ذکر عمران خان کرتے ہیں۔‘ مزید کریدنے پر انہوں نے کہا کہ وہ اس بات کی تفصیل خود بیان نہیں کرنا چاہتیں۔ تاہم بارہا اصرار کرنے پر انہوں نے کہا کہ وہ اس کا مطلب نہیں بتا سکتیں کیونکہ ’بلیک ویگو والے لے جائیں گے۔‘
عمران خان نے لوگوں کو باقی شہروں سے جلسے میں شرکت کی کال نہیں دی تھی بلکہ اپنے اپنے شہروں میں تقریر سننے کی ہدایت کی تھی لیکن پنڈال میں خیبرپختونخوا کے کارکنان کی بڑی تعداد نظر آئی، لکی مروت اور دیر سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد جلسے میں پہنچی تھی۔ ان سے پوچھنے پر بتایا گیا کہ مقامی رہنماؤں نے انہیں جلسے میں شرکت کا کہا تھا۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کی بات کریں تو بابر اعوان ہوں یا شیخ رشید، تقریباً سب ہی نے اسٹیبلشمنٹ اور اداروں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے امریکہ مخالف بیانیہ دہرایا۔
شہریار آفریدی نے ’کیا نیوٹرل نیوٹرل ہے؟‘ تو شیخ رشید نے ’پرانے دوستوں سے دوستی چھوڑ دی، اب عمران خان سے دوستی ہے‘ کا بیان دیا۔
جلسے میں بھگدڑ، صحافیوں سے بد تمیزی
جلسے کا مقام تو وہی تھا جہاں اس سے قبل بھی عمران خان نے جلسہ کیا، لیکن اس وقت نہ بدنظمی ہوئی نہ کوئی مشتبہ شخص گرفتار ہوا اور نہ بھگدڑ مچی۔
لیکن ہفتے کے روز پنڈال میں شدید بدنظمی بھی ہوئی، میڈیا کنٹینرز پر پتھر بھی برسائے گئے اور صحافیوں کے ساتھ بدتمیزی بھی کی گئی۔ بدنظمی اتنی تھی کہ صحافی میڈیا کنٹینر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
صحافیوں نے پارٹی رہنما علی نواز اعوان سے شکایت کی تو انہوں نے معذرت کرنے کی بجائے کہا: ’کیا کریں خان صاحب کے جلسے میں لوگ ہی اتنے آتے ہیں، کیسے روکیں۔‘
پی ٹی آئی کے جلسے میں بدنظمی اس وقت شروع ہوئی جب رہنماؤں کی تقاریر کے دوران کارکنان بیریئرز توڑ کر خواتین انکلوژر میں داخل ہوئے، جس کے باعث بھگدڑ مچ گئی اور بعض کارکنان میڈیا کے لیے مختص کیے گئے کنٹینرز پر چڑھ گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کنٹینر مزید بوجھ سے ہلنا شروع ہو گیا اور نیچے کھڑے افراد نے ان پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ شدید بدنظمی کے باعث پولیس کو کارکنان پر لاٹھیوں کا استعمال بھی کرنا پڑا۔ اس دوران صحافی بہت مشکل سے کنٹینر سے نیچے اترے۔
اس تمام بدنظمی کے دوران پارٹی ترانے بجتے رہے اور رہنما کارکنان کا لہو گرمانے میں مصروف نظر آئے۔
کچھ دیر بعد عمران خان کی تقریر شروع ہوئی تو لوگ اس مرتبہ عمران خان کے کنٹینر پر چڑھنے لگے۔ جب کنٹینر کی پچھلی جانب لگی سیڑھیاں بھی لوگوں سے بھر گئیں تو پولیس دوبارہ سے انہیں منتشر کرنے لگی۔
لیکن اس مرتبہ لوگ سیڑھیوں سے اترنے کے بجائے وہیں کھڑے رہے اور نیچے کھڑے لوگوں نے پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ لوگوں کو ہٹانے کے دوران ایک پولیس افسر بھی کنٹینر سے نیچے گرے اور ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ ہماری ٹیم نے اس واقعے کو ریکارڈ کرنے کے لیے فون نکالا تو کچھ افراد نے ہم سے سوال کیا: ’آپ جیو سے تو نہیں ہیں؟‘
جس کا جواب ہم نے یہ دیا: ’ہم جیو سے ہوں، اے آر وائے سے یا بول نیوز سے، ہمارا کام رپورٹ کرنا ہے۔‘
اس دوران دیگر کئی افراد بھی ہمارے گرد اکٹھے ہونا شروع ہو گئے اور وہی سوال کرنے لگے۔ جس فرد نے سب سے پہلے ہم سے سوال پوچھا تھا، اس نے کہا: ’نہیں، اگر جیو سے ہوں تو بہت مسئلہ ہے۔‘ اس فرد نے اپنا تعارف پی ٹی آئی کی سکیورٹی ٹیم کے رکن کے طور پر کروایا۔
ایک طرف عمران خان کی تقریر کے دوران عوام رد عمل دیتی رہی جبکہ دوسری جانب کئی افراد پنڈال چھوڑ کر نکلنا شروع ہو گئے۔
عمران خان کی جارحانہ انداز سے جاری تقریر پر پنڈال میں موجود سپورٹرز بھی کافی جذباتی ہوتے نظر آئے۔ ایک عمر رسیدہ خاتون نے کہا: ’عمران خان کے نکالے جانے کے بعد سے انہیں کوئی اچھا نہیں سمجھتا، یہ بھی غدار ہیں۔‘
تقریر ختم ہونے کے بعد جب لوگ جلسہ گاہ سے نکلنا شروع ہوئے تو ان میں اپنا بازو سہلاتی ایک خاتون بھی تھیں۔ وجہ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ انہیں بھگدڑ کے دوران چوٹ آئی ہے۔ انہوں نے کہا: ’نیچے پتھراؤ ہوتا رہا اور اوپر عمران خان تقریر کرتے رہے‘ اور اس کے ساتھ ہی وہ جلسہ گاہ سے باہر چلی گئیں۔