پاکستان کے قبائلی اضلاع میں اب محافظ بھی محفوظ نہیں رہے جہاں، باجوڑ سے لے کر وزیرستان تک پولیس پر حملوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے لیکن بظاہر وزیرستان خاص نشانے پر ہے۔
مبصرین کے خیال میں طالبان خاصہ دار فورس کی جگہ رائج پولیس نظام کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ پاکستان حکومت کو مجبور کر سکیں کہ وہ انضمام کا فیصلہ واپس لے جس کی وجہ سے طالبان پولیس کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
چند ہی دنوں میں پولیس پر نصف درجن سے زیادہ حملے ہوئے اور ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر پولیس تھانوں کے افسران شامل ہیں۔ گذشتہ دو دن پہلے ضلع جنوبی وزیرستان میں دو موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے پولیس افسر کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ پولیس کی جوابی کارروائی میں ایک حملہ آور ہلاک جبکہ دوسرا زخمی ہوا تھا۔
پولیس افسر ذبیح اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پولیس افسر موسیٰ سلیمان خیل کو دو موٹر سائیکل سوراروں نے اس وقت فائرنگ کر کے قتل کر دیا جب وہ اعظم ورسک تھانے کے قریب ایک پولیس ناکے پر موجود تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ناکے پر موجود پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے ایک حملہ اور بھی ہلاک جبکہ دوسرا زخمی ہوا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ موسیٰ سی ٹی ڈی میں سب انسپکٹر تھے۔
پولیس کے مطابق حملہ آور مقامی تھے جن کا تعلق کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے بتایا جاتا ہے۔ اہلکار کے مطابق حملے میں ملوث دونوں شدت پسند وانا بازار میں اس سے پہلے بھی پولیس پر حملہ کرنے کے جرم میں مطلوب تھے۔
اس واقعے سے ایک ہفتہ قبل وانا بازار میں پولیس اہلکار سعید اللہ کو پیدل آنے والے ایک مسلح شخص نے اس وقت فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا جب وہ ڈیوٹی پر موجود تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیس کا کہنا تھا کہ پولیس افسر کے قتل میں ملوث دونوں شدت پسند پولیس اہلکار سعید اللہ کی ہلاکت میں بھی ملوث تھے۔
ان دونوں واقعات سے پہلے وانا بازار میں ڈیوٹی پر موجود ایک اور اہلکار کو رات کے وقت نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ پولیس اہلکار کے ساتھ موجود ان کا دوست بھی گولیوں کی زد میں آکر ہلاک ہو گیا تھا۔
اس طرح ضلع خیبر میں بھی نامعلوم افراد کی فائرنگ سے پولیس اہلکار قوت خان مارے گئے تھے اور جنوبی وزیرستان کے سنگم پر واقعہ ضلع ٹانک کی حدود میں نامعلوم افراد نے گولی مار کر ایک اہلکار کو ہلاک کر دیا تھا۔
چند دن پہلے شمالی وزیرستان میں چھٹی پر آئے ایک فوجی اہلکار کی سر کٹی لاش کھیتوں سے ملی تھی۔
مبصرین کے خیال میں جب سے حکومت پاکستان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا ہے تب سے پولیس اہلکاروں پر حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پولیس کے آنے کے بعد مقامی لوگ زیادہ تر معاملات طالبان کی بجائے پولیس تھانوں میں لے جاتے ہیں جس کی وجہ سے طالبان کی آمدن میں بڑے پیمانے پر کمی ہوئی ہے۔
مولانا نور حسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پولیس کو تربیت کے ساتھ ساتھ ان کے افسروں کی علاقے میں موجودگی بہت زیادہ ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی وزیرستان کے پولیس سربراہ وانا سے تین سو کلومیٹر دور ضلع ٹانک میں بیٹھتے ہیں تو وہ کیسے امن و امان برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔