لاپتہ افراد کیس: ’حکومت اقدامات نہیں کرتی تو وزیراعظم پیش ہوں‘

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ وزیر اعظم عملاً دکھائیں کہ جبری گمشدگی ریاست کی غیر اعلانیہ پالیسی نہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت کا بیرونی منظر (تصویر: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کو مدثر نارو سمیت دیگر لاپتہ افراد کے متعلق متفرق درخواستوں پر سماعت کے بعد ایک حکم نامے میں وزیر اعظم شہباز شریف کو ہدایت کی ہے کہ وہ نو ستمبر کو لاپتہ افراد کی عدالت پیشی یقینی بنائیں۔

حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ لاپتہ افراد کو پیش کرنے میں ناکامی کی صورت میں وزیراعظم خود پیش ہوں اور ریاست کی آئینی ذمہ داریوں میں ناکامی کی وضاحت دیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آج مدثر نارو اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کیسز پر سماعت کی جس میں لاپتہ افراد کی جانب سے وکلا انعام الرحیم، ایمان مزاری اور دیگر جبکہ حکومت کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود کیانی پیش ہوئے۔

حکم نامے کے مطابق وزیر اعظم لاپتہ افراد کیس میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی سے عدالت کو آگاہ کریں اور عملاً دکھائیں کہ جبری گمشدگی ریاست کی غیر اعلانیہ پالیسی نہیں۔

آج سماعت کے آغاز پر ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود کیانی نے عدالت کو بتایا کہ وفاق نے اس معاملے پر عدالت میں رپورٹ جمع کرائی ہے جبکہ آج کابینہ کا اجلاس بھی ہے۔

اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’یہ عدالت کیا کرے؟ کیا چیف ایگزیکٹو کو طلب کرے؟ دو فورمز نے ڈکلیئر کردیا کہ یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے پھر کیا ہوا؟

’جے آئی ٹی، جس میں آئی ایس آئی اور دیگر ادارے ہیں، نے کہا ہے کہ یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے۔ یہ ساری ایجنسیاں کس کے کنٹرول میں ہیں؟ کون ذمہ دار ہے۔‘

اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’یہ ایجنسیز وفاقی حکومت کے ماتحت ہیں۔‘ چیف جسٹس نے کہا: ’یہ واضح ہے کہ نہ موجودہ اور نہ سابقہ حکومت کا لاپتہ افراد سے متعلق فعال کردار ہے۔ سب سے بہترین انٹیلی جنس ایجنسی نے اس کیس کو جبری گمشدگی ڈکلیئر کیا ہے۔ یہ عدالت صرف آئین کے مطابق جائے گی۔ ہمیں بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔‘

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دلایا کہ ’کابینہ کی کمیٹی ان تمام معاملات کو دیکھے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ان کیسز میں کارروائی اس طرح نہیں ہو رہی جس طرح یہ ڈیل ہونے چاہیے تھے۔ وزارت داخلہ نے کابینہ ڈویژن کو لکھا ہے کہ سابق چیف ایگزیکٹیوز کو اپنے بیان حلفی جمع کروانے کا کہیں۔ ہمیں درخواست گزاروں کا احساس ہے۔ موجودہ حکومت کو تھوڑا وقت دے دیں۔‘

جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’یہ عدالت کسی کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہتی ہے۔ جس کے دور میں لوگ لاپتہ ہوئے، وہ ذمہ دار ہیں۔ اگر احساس ہوتا تو ان (سائلین) کو عدالت آنے ہی نہ دیتے بلکہ انہیں خود تلاش کرتے۔

’جب جبری گمشدگی کا کیس ڈکلیئر کردیا تو اس کی تحقیقات ہونی چاہیے تھیں۔ جب تمام ریاستی ایجنسیاں کہہ رہی ہیں تو پھر ریاست کو لاپتہ فرد کو پیش کرنا چاہیے تھا۔‘

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’اب یہ کورٹ کس سے تحقیقات کرائے؟ جب بہترین ایجنسیوں نے جبری گمشدگی کا کیس ڈکلیئر بھی کردیا۔ دو سال سے تو لاپتہ افراد کمیشن نے پیش کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔‘

اسی اثنا میں ایک درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ ان کے بیٹوں کے کیس میں بھی جے آئی ٹی کی رپورٹس ہیں اور انہیں جبری گمشدگی کہا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وکیل انعام الرحیم نے عدالت کو بتایا کہ 35 افراد سے متعلق سپریم کورٹ کے سامنے کہا گیا تھا کہ ’یہ آرمی اتھارٹیز کے پاس ہیں۔‘

جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیوں آرمڈ فورسز پر اس قسم کے معاملات میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ یہ عدالت اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ جو ریاست کا ردعمل ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہے۔ اگر کلبھوشن یادو کی فیملی سے میٹنگ کروا سکتے ہیں تو لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے ساتھ کیوں نہیں؟‘

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’ان افراد کی بازیابی کے سلسلے میں ہر کسی نے اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے اور اگر کوئی بات نہیں مانتا تو اس کے خلاف مِس کنڈکٹ کی کارروائی ہونی چاہیے۔‘

’اگر کوئی ملٹری پرسن بھی ایسا کرتا ہے تو اس کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے، کیونکہ نیشنل سکیورٹی کمزور ہوتی ہے جب ان (لاپتہ افراد کے اہل خانہ)کو شک ہو کہ آرمڈ فورسز ملوث ہیں۔ آرمڈ فورسز کا وقار ہمارے مدنظر ہے، اگر وہ ملوث ہیں تو ان کو بھی جواب دہ ہونا چاہیے۔‘

عدالتی معاون فرحت اللہ بابر نے عدالت عالیہ کے سامنے کہا: ’میری گزارش یہ ہے کہ میں ثبوت دوں گا کہ ریاست کی ایجنسیاں اس میں ملوث ہیں۔ 2019 میں آئی ایس آئی نے کہا تھا کہ تمام لاپتہ افراد نہیں، کچھ ہمارے پاس ہیں۔ ہم ایک سیل بنائیں گے۔ میں تو یہ کہوں گا کہ وزیراعظم کو بلائیں اور ان سے پوچھیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ آئی ایس آئی کسی قانون سازی کے زیر نہیں۔‘

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ایسا نہ کہیں۔ آئی ایس آئی براہ راست وزیراعظم کے ماتحت ہے۔ ماضی میں وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ وہ بات نہ ماننے پر ان کا کورٹ مارشل کریں گے۔ پارلیمنٹ اب اپنی ذمہ داری یوں شفٹ نہ کرے کہ آئی ایس آئی صرف حکومت کا ایک ڈپارٹمنٹ ہے، آئی ایس آئی وزیراعظم کے براہ راست کنٹرول میں ہے۔ پبلک آفس ہولڈرز کو اپنی ذمہ داری شفٹ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کیا پارلیمنٹ یہ موقف اختیار کر سکتی ہے کہ وہ بے بس ہیں؟‘

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ ’پارلیمنٹ کے پاس اختیارات ہیں۔ جب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ بے بس ہے تو پھر چیف ایگزیکٹو آکر یہ کہے۔ پھر آپ عدالت سے کیا توقع رکھتے ہیں۔ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔‘

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید ریمارکس دیے کہ ’باتیں سب کرتے ہیں، عملاً کوئی کچھ کام نہیں کرتا۔ نہایت قابل عزت پارلیمنٹیرین عدالت کو کہہ رہے ہیں کہ آئین قابل عمل نہیں ہے۔‘

فرحت اللہ بابر نے ان ریمارکس پر چیف جسٹس سے کہا کہ ’ریاست کے اندر ریاست ہے۔ عدالتوں کے فیصلے نہیں مانے جاتے۔‘

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے: ’میں یہ سمجھتا ہوں کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ سب کی ذمہ داری ہے۔ لاپتہ افراد کے بل کے بارے میں سنا تھا کہ سینیٹ میں آگیا تھا اور اب وہ مسنگ ہے؟ اب وہ کدھر ہے۔ پچھلی حکومت بھی یہی کر رہی تھی، موجودہ حکومت بھی یہی کر رہی ہے۔‘

بعدازاں عدالت نے مزید کارروائی کے لیے سماعت نو ستمبر تک ملتوی کر دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان