بھارتی شہر حیدرآباد میں گنبدان قطب شاہی اسلامی طرز تعمیر اور ہندو طریقہ معماری کے امتزاج کا شاہکار ہیں اور اسی وجہ سے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔
یہاں گنبدوں کے نیچے قطب شاہی حکمران خاندان کے سات بادشاہ دفن ہیں، جنہوں نے تقریباً دو سو سال تک دکن پر حکمرانی کی۔ یہی وہ خاندان ہے جس نے حیدرآباد کو جنم دیا اور شہرہ آفاق چار مینار بھی دیا۔
حیدرآباد میں گولکنڈہ قلعے سے متصل گنبدان شاہی کا مپلیکس ہے، جو اب ناجائز قبضوں کی وجہ سے سمٹ گیا ہے۔
یہ کمپلیکس 108 ایکڑ پر مشتمل ہے، جس میں 72 یادگاریں، 40 مقبرے، 23 مساجد، چھ باؤلیاں، ایک میت کو غسل دینے کا حمام، ایک پویلین، حوض، باغات اور ان میں داخلے کے دروازے اور دیواریں شامل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں ان مقبروں پر قیمتی کتبے لگے ہوئے تھے جو زمانے کے دست و برد اور چوروں سے محفوظ نہیں رہ پائے۔
گذشتہ کئی برسوں سے یہاں آغا خان ٹرسٹ فار کلچر اور حکومت کی کوششوں سے تاریخی ورثے کی بحالی کا کام چل رہا ہے، جس کے ختم ہونے کی میعاد رواں سال جنوری تھی۔
ایک حالیہ دورے میں ہم نے دیکھا کہ یہاں ابھی بھی مرمتی کام ادھورے ہیں۔ کئی مقبروں اور باؤلیوں میں کام چل رہے ہیں۔ تاہم جن مقبروں کی تزئین مکمل ہوگئی ہے، وہ بہت ہی خوبصورت نظر آرہے ہیں۔
قطب شاہی گنبد میں جن قطب شاہیوں کے مقبرے ہیں ان کی سلطنت دکن میں بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد گولکنڈہ میں قائم ہوئی، جو 1512 سے 1687 تک چلی۔
قطب شاہی سلطنت کے بانی سلطان قلی شاہ تھے۔ یہ ایران سے فرار ہوکر دکن پہنچے اور صوبہ تلنگانہ کے صوبہ دار بن گئے۔
بہمنی سلطنت کا سورج غروب ہوتے ہی سلطان قلی شاہ نے اپنی خودمختیاری کا اعلان کرکے قطب شاہی کی بنیاد قائم کی جس نے تقریباً دو سو برس تک یہاں حکومت کی۔
قطب شاہی سلطنت میں جمشید قطب شاہ، سبحان قلی قطب شاہ، ابراہیم قطب شاہ، قلی قطب شاہ، محمد قطب شاہ، عبداللہ قطب شاہ اور ابوالحسن قطب شاہ بادشاہ رہے۔
مغل حکمراں اورنگزیب سے شکست کھانے کے بعد یہ سلطنت تو ختم ہوگئی مگر مقبروں کی شکل میں اس کے نشان باقی رہ گئے۔
سجاد شاہد مرکز برائے مطالعات دکن کے معتمد ہیں جنہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں گنبدان شاہی کا خاکہ پیش کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ اس جگہ کی اہمیت اس لیے ہے کیونکہ یہاں قطب شاہ سلطنت کے سات بادشاہوں کے مقبرے ہیں۔ ’دنیا میں بہت کم جگہیں ایسی ہیں جہاں آپ ایک ہی جگہ پر ایک حکمراں خاندان کی کئی پشتوں کے تعمیری ذوق کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مثال دی کہ سلطنت کے پہلے بادشاہ کے زمانے میں خطے میں تعمیرات کیسی تھیں اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ان میں کیسے تبدیلی آتی رہی، خاص طو پر جب سلطان ابراہیم وجے نگر گئے اور وہاں راجہ کے پاس سات سال رہے۔
سجاد شاہد نے کہا کہ سلطان ابراہیم نے تیلگو تہذیب کو قریب سے دیکھا اور ان کی تیلگو شاعروں اور ادب سے شناسائی ہوئی، ان کی شادی بھی ایک مقامی شہزادی سے ہوئی اور اس طرح ثقافتی روایات کا تبادلہ ہوا، جو نہ صرف خود سلطان پر اثرانداز ہوا بلکہ سلطان کے دربار میں بھی اس کا عکس نظرآتا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’ابراہیم کے مقبرے میں سب سے پہلے پتھر کا استعمال نظر آئے گا۔ مندروں میں جو تزئین ہوتی ہے، وہاں جس طرح پتھر کا استعمال ہوتا ہے، اس کی چھاپ مقبروں پر دکھائی دیتی ہے۔ ابراہیم نے کالے پتھروں کا استعمال کیا۔ محمد قلی نے پورا دروازہ مندروں کے طرز تعمیر سے متاثر ہوکر بنوایا۔
’محمد قلی سے قبل اسلامی طرز تعمیر کی چھاپ تھی، جو بعد میں مندروں کے طرز تعمیر سے متاثر ہوئی اور اسی لیے محمد قلی کے زمانے میں جو مقبرہ بنا اس میں درواز میں تراشے ہوئے پتھر استعمال ہوئے جو بالکل مندروں کے طرز تعمیر سے عبارت ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں اسلامی طرز تعمیر میں مقامی اثرات نظر آئے۔‘
ہر دور میں صاحب اقتدار لوگوں کی یہ سوچ رہی ہے کہ وہ ایسی چیزیں چھوڑ جائیں جو منفرد ہوں اور انہیں پہچان دے۔ قطب شاہیوں نے بھی ایسا ہی کیا۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ قلی قطب پہلے بادشاہ ہیں جن کا مقبرہ بہت ہی سادہ ہے، مگر جب یہاں کام ہوا تو پتہ چلا کہ جتنی نقش ونگاری اس میں ہے وہ کسی اور میں نہیں۔
سجاد شاہد کے مطابق کسی زمانے میں ان کے مقبرے پر سیمنٹ چڑھا دیا گیا تھی، مگر جب اسے ہٹایا گیا تو اصل خوبصورتی کا اندازہ ہوا۔
دوسرے بادشاہ جمشید کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا مقبرہ چوکور وضع کا ہے جو سہ منزلہ لگتا ہے، اور یوں شاید بادشاہ جمشید نے نیا سٹائل ایجاد کرنے کی کوشش کی۔ تاہم ان کے بعد آنے والے بادشاہوں کے مقبروں میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
بادشاہ سبحان کی موت 1550 میں کم عمری میں ہوئی تھی، تو ان کا مقبرہ چھوٹا ہے مگر اس میں نفاست ہے اور اناناس بنا ہوا ہے جو اس زمانے میں یہاں کاشت ہونا شروع ہوا۔
سجاد شاہد نے بتایا کہ اس کے بعد بادشاہ ابراہیم کا دور آیا جنہوں نے ہندو ثقافت میں وقت گزارا تھا تو یوں ان کے مقبرے میں تراشہ ہوا کالا پتھر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سب سے شاندار گنبد اور مقبرہ بانی حیدرآباد محمد قلی کا ہے۔
محمد قلی کا کوئی بیٹا نہیں تھا تو انہوں نے بیٹی حیات بخشی کی شادی اپنے بھتیجے سے کی۔ ان کی بیٹی اور نواسے کا مقبرہ بھی اسی کمپلیکس میں ہے۔