لندن میٹروپولیٹن پولیس کی ایک سینئر افسر نے محکمے پر نسلی اور صنفی امتیاز کا الزام عائد کیا ہے۔
54 سالہ قائم مقام چیف سپریٹنڈینٹ پرم سندھو کہتی ہیں کہ انہیں پولیس میں 30 سالہ سروس کے دوران ترقی اور کام کے مواقعے نہیں دیے گئے۔
سکاٹ لینڈ یارڈ نے پرم سندھو کے الزام کی سماعت کا اعلان کیا ہے، تاہم تاریخ طے ہونا باقی ہے۔ محکمے کے ترجمان نے کہا ’اس مرحلے پر مزید تبصرہ نامناسب ہوگا۔‘
یہ صورت حال ایسے وقت پر سامنے آئی جب پرم سندھو کوئنز پولیس میڈل کے لیے نامزدگی کے قواعد کی خلاف ورزی کے الزام سے بری ہو گئی ہیں۔ یہ الزام ان پر گذشتہ برس لگایا گیا تھا۔
جون 2018 میں ان کی ذمہ داریاں محدود کر دی گئی تھیں۔ اس دوران محکمہ پولیس میں ان کے خلاف اس الزام کی داخلی سطح پر تحقیقات کی گئیں جس کے مطابق انہوں نے میڈل کی لیے اپنی نامزدگی کی خاطر لابنگ کی تھی۔
برطانیہ میں پولیس سربراہوں کے لیے قائم کونسل نے رہنما اصول وضع کر رکھے ہیں جن کے تحت کوئی بھی کسی دوسرے کو میڈل کے لیے نامزد کر سکتا ہے لیکن خود کو نہیں۔
لندن پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ محکمے کے ڈائریکٹوریٹ آف پروفیشنل سٹینڈرڈز نے تین افسروں کے خلاف اسی نوعیت کے الزامات کی چھان بین کی تھی۔
تحقیقات کا عمل جون 2019 میں مکمل ہو گیا۔ چھان بین کے دوران سامنے آیا کہ کسی پولیس افسر کے خلاف ضابطے کی بڑی خلاف ورزی کا کوئی کیس نہیں بنتا۔
پرم سندھو نے نسلی اور صنفی امتیاز کے اپنے الزام پر سرعام تو کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن ہفتے کو بی بی سی کے اس معاملے پر ایک مضمون کو ری ٹویٹ کیا ہے۔
پرم سندھو نے 1989 میں لندن پولیس میں ملازمت شروع کی۔ انہوں نے 2006 میں ’ایشین وومن آف اچیومنٹ‘ ایوارڈ حاصل کیا۔ انہیں یہ ایوارڈ سات جولائی 2005 میں لندن میں سفر کے زیر زمین نظام پر دہشت گرد حملوں کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں شہریوں کا حوصلہ بلند رکھنے کے صلے کے طور پر دیا گیا تھا۔
پرم سندھو 2016 میں ’رچمنڈ اپان ٹیمز‘ میں بورو کمانڈر بنیں اور جون 2018 میں انہوں نے ٹویٹ کیا وہ چیف سپریٹینڈینٹ بننے جا رہی ہیں۔ اس عہدے پر پہنچنے والی وہ پہلی ایشیائی خاتون ہوں گی۔
انہوں نے حال ہی میں یہ انکشاف بھی کیا کہ کس طرح انہیں ایک اجلاس میں ’چائے والی‘ سمجھ لیا گیا جس کی صدارت وہ خود کر رہی تھیں۔
© The Independent