جب یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں امریکی صدر جو بائیدن مشرق وسطیٰ کے دورے پر روانہ ہونے سے پہلے اپنی تیاری کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔
صدر بائیڈن کے دورے کے اہداف بڑے واضح ہیں لیکن ان واضح اہداف کے باوجود حکمت عملی کثیر الجہت بھی ہے اور تہہ در تہہ بھی۔
کچھ اہداف کا اپنے حصول کی طرف جلدی بڑھ جانے کا امکان نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر بعض مقاصد ایسے بھی ہیں جنہیں حاصل کرنے میں وقت اور کامیابی کے پیمانے الگ الگ ہوں گے۔
مختلف مبصرین اس دورے کو خطے کی تبدیلی کے لیے اہم پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں اس لیے دورے کے مقاصد کتنے بھی غیر مبہم اور واضح ہوں اصلاً انتہائی مشکل مگر نئے حالات میں مقابلتاً کم مشکل ہیں۔
یہ قدرے آسانی اس لیے بھی ہے کہ خود خطے میں تبدیلی کے عمل کی مؤثر شروعات ہو چکی ہیں۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے امور مملکت کو سنبھالنے کو ہی ایک بڑی تبدیلی کا نکتہ آغاز سمجھا جا سکتا ہے۔
ان کا ولی عہد بننا اور ان کا وژن 2030 خود اس تبدیلی کے آغاز کے مظاہر ہیں لیکن امریکی صدر کے دورے کے اہداف نہ صرف امریکہ، مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کے لیے درجہ بدرجہ اہم ہیں۔
دورے کے اہداف میں بہت سے نکات ایک عرصے سے شامل چلے آ رہے ہیں۔ تاہم روس کے یوکرین پر حملے نے امریکہ اور یورپ کے لیے کئی نئے چیلنج پیدا کیے ہیں۔
ان چیلنجوں میں فوجی امور کے علاوہ توانائی کے امور بہت اہم ہیں۔ ان دونوں کے بیک وقت آ دھمکنے سے معاشی چیلنج کا جنم لے لینا تباہ کن ہو سکتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کا دور واپس لانا کسی کے لیے پسندیدہ نہیں۔ اس مقصد کے لیے ماہ فروری سے اب تک امریکی سوچ اور خطے کے اہم کھلاڑیوں کی سوچ کی سمتوں میں وسعت اور تغیر نمایاں ہونا فطری ہے۔
پچھلے سال 15 اگست سے افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آ جانے سے امریکی ساکھ کو ضرب لگی تھی۔ اس کے بعد روس کا یوکرین پر حملہ، گویا امریکہ کے لیے یکے بعد دیگرے دو بڑے مسئلے پیدا ہو گئے اور امریکہ کو دو بڑے دھچکے لگ گئے۔
دنیا میں قوت وہیبت کے کم ہونے کے تاثر کا ازالہ کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ میں ایسے فیصلوں میں سرعت دکھانا دنیا میں امریکی غلبے کی بھی ضرورت ہے اور توانائی کے چیلنج کو بڑھنے سے پہلے روکنے کی بھی۔
امریکی اسلحے کی صنعت کے لیے خطے میں نئے امکانات کا جائزہ لینے اور ان امکانات کی روشنی میں آنے والے برسوں میں اہم فیصلے کرنا۔
نیز روس اور چین کی غیر معمولی قربت کے سیاسی، عسکری، جغرافیائی اور معاشی مضمرات کے رد کے لیے مشرق وسطٰی کے ممالک اور تیل کو متحرک کرنا اولیں مقاصد میں اہم ہیں۔
ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے علاقے میں اجتماعی سوچ کی راہ میں ہر قسم کی رکاوٹوں کو ختم کرنا، ایرانی ڈرونز حملوں اور میزائل حملوں سے اسرائیل، سعودی عرب اور دیگر تمام ممالک کو محفوظ بنانا کے لیے اجتماعی دفاعی نظام وضع کرتے ہوئے تمام ملکوں کو مشترکہ دشمن اور مشترکہ دفاع کی سوچ پر مجتمع کرنا، نیز اس سوچ کو ہی اصلاً معاہدہ ابراہم کی روح کے طور پر پیش کرنا اہم ضرورت ہے۔
اسرائیل کے لیے خطے میں احساس تحفظ کو بڑھانے کے لیے معاہدہ ابراہم کے اگلے مرحلے کے اہداف کو بتدریج حاصل کرنا اس سلسلے میں سوچ، راستے اور منزل کے حوالے سے پائے جانے والے ابہام کو دور کرنا۔
اسرائیل کے ساتھ خطے کے ملکوں میں منفی تصورات اور نفرت کو جڑ سے اکھاڑ دینے کی کوشش اور اس کی جگہ مشترکہ مقاصد کی عمارت تجارتی ودفاعی معاہدات کے اینٹ گارے سے تعمیر کرنا اور تعلقات کے ظاہری حسن و اظہار کے لیے نارملائزیشن کو وسعت دینے کی راہیں ہموار کرنا بھی امریکی اہداف میں شامل ہے۔
خطے کے سبھی ملکوں کو باہم ایک دوسرے کے لیے ہر حوالے سے متحدہ عرب امارات اور بحرین کی مثالوں کے مطابق قابل قبول بنا دینا۔
بعض کا یہ کہہ دینا کہ یہ اسرائیل کو تسلیم کرانے کی ایک کاوش تک محدود ہدف ہے، یہ کافی نہیں۔ یہ معاملہ بعض پہلوؤں میں اس سے بھی آگے کا ہے۔
یورپ کو آسانی سے گیس فراہمی کے لیے اسرائیل اور لبنان کے درمیان گیس تنازعے کو اس طرح سلجھانا کہ یہ گیس یورپ کے لیے فراہم ہونا ممکن اور محفوظ ہو جائے۔
اس دورے کی اہمیت اور امریکی نکتہ نگاہ سے کامیابیوں کا اظہار جو بائیڈن کا دورہ شروع ہونے سے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا۔
صدر بائیڈن کا اپنے پیش رو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ہونے والے معاہدہ ابراہم کو نئے حالات میں امریکی، اسرائیلی اور علاقائی اہداف کے لیے عملاً مفید مان لینا۔
ٹرمپ کے راستے کو ہی اپنے لیے کامیابی کی سیڑھی بنانے کے ساتھ ساتھ خود امریکی کامیابی کا زینہ مان لینا بھی انہی اہداف کے بدولت ہے۔
جو بائیڈن کا صدارتی انتخاب کے دوران لگائے گئے نعروں اور انتخاب جیتنے کے بعد کے دعوؤں کے باوجود مشرق وسطیٰ کے بارے میں اپنے خیالات میں تبدیلی پر تیار ہونا۔
ایک ہدف کے لیے نہیں کئی درپیش چیلنجوں، مسائل اور اہداف کے لیے ضروری تسلیم کر لیا گیا۔
آج کل کی سیاسی لغت میں یہ 'یوٹرن' ہے، اس پر اصولی موقف کی بات کرنے والے تنقید بھی کرتے ہیں مگر حقیقت یہ کہ حکمت عملی، سفارتی ہو یا تزویراتی، معاشی ہو یا سماجی ہر ملک اپنے حالات، ضروریات اور اہداف کے مطابق 'یو ٹرن' لینے پر مائل رہتا ہے۔
خصوصاً جب ہر ملک کی خارجہ پالیسی محض مفادات کے حصول کا ذریعہ ہو تو اصولوں کی بحث کے مقابلے میں 'یو ٹرنز' اور کچھ لو کچھ دو کی باتیں ہی بروئے کار رہ سکتی ہیں۔
اپنے ملکوں کے اندر اور دیگر ممالک یا اقوام کے ہاں اس بارے میں کوئی اچھی رائے بنائے یا منہ کو برا بنائے کو غیر اہم سمجھا جا سکتا ہے۔
اس لیے صاف نظر آ رہا ہے کہ جن بدلتی ہوئی زمینی حقیقتوں میں صدر جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کو اپنی سوچ کا قبلہ تبدیل کرنا پڑا ہے، یہ تبدیلی اب محض امریکہ تک محدود نہیں رہے گی۔
اس کے اثرات ہر اس ملک میں بھی جلد یا بدیر نظر آئیں گے جو مشرق وسطیٰ کے ممالک سے معاشی، سیاسی اور جغرفیائی یا تجارتی رشتوں میں بندھا ہوا ہے۔ اگر جو بائیڈن کا دورہ 50 فیصد بھی کامیاب رہا تو وہ خطے کے لیے ’ابو تغیر‘ ثابت ہوں گے۔
اسرائیلی دورے کے دوران آئی 2 یو 2 کے رکن چاروں ممالک بھارت، اسرائیل، امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے سربراہان کا ویڈیو لنک پر سربراہی اجلاس رکھنا اور ایک طرف مشرق وسطیٰ کے ممالک اور دوسری جانب انڈیا پیسفک کے حوالے باہمی تعاون اور مشترکہ کوششوں کے تبادلہ خیال کرنا تاکہ مستقبل کی تغیر پذیر ضرورتوں کو ابھی سے سمجھنا اور ہر ایک کے ذمہ کا کام 'ڈیفائن' کر دینا۔ اس میں بیک وقت اسرائیل اور انڈیا کے سربراہوں کا ہونا اہم تر ہے۔
اسی نیٹ ورکنگ اور تعاون کے سوچ کے 'فالو اپ' کے طور پر سعودی دورے کے دوران جی سی سی پلس تھری، مصر، اردن اور عراق کا سربراہی اجلاس ریاض میں بلانا، یقیناً کوئی تبدیلی نہیں اس سے پہلے ٹرمپ کے دور میں بھی ایسا ہو چکا ہے۔
لیکن ٹرمپ دور کے معاہدہ ابراہم پر جس سبک رفتاری سے عمل آگے بڑھا تھا اس خلیج پلس تھری کے سربراہی اجلاس میں ویسی ہی سبک رفتاری سے زیادہ امید لگائی جائے گی، جو تغیر کی رفتار کے لیے مہمیز کا باعث بنے گی۔
کچھ تبدیلیاں جو بائیڈن کے اس دورہ مشرق وسطیٰ کے اعلان کے ساتھ ہی اور اس سے جڑے ملکوں میں بھی نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔
گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہت سارا کام مکمل کرنے کے بعد ہی امریکی صدر کے دورہ کا باضابطہ اعلان کیا گیا تھا۔
ایک تبدیلی یہ آئی کہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے درمیان سکیورٹی کے مسائل پر ایک ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات کافی عرصے کے بعد ہوئی۔ سوال یہ ہو گا کہ یہ ملاقات امریکی صدر کے دورے کو محفوظ بنانے کے ایجنڈے تک محدود تھی یا اس کا ہدف بدلتے ہوئے حالات میں فلسطینی مزاحمت کچلنے کی حکمت عملی بھی تھی؟ اگر ایسا بھی تھا تو آنے والے چند ہفتے بھی غیر معمولی ہو سکتے ہیں۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز نے جون میں فوری طور پر سہ ملکی دورہ کیا۔ اپنے ساتھی ممالک کے ساتھ ضروری مشاورت کی۔ انہیں بہت سارے معاملات پر اعتماد میں لیا بھی اور اعتماد دیا بھی۔
ترکیہ، اردن اور مصر کا سفر بھی اسی زمرے میں تھا ۔ ولی عہد کے دورہ ترکیہ کی اہمیت دو چند بلکہ سہ چند اور کثیر الجہت تھی۔ یہ دورہ دوطرفہ دوری کو قربت میں تبدیل کرنے کا اہم موقع رہا۔
مصر کے ساتھ جزیروں پر تنازع کا حل سعودی عرب میں نکلا۔ اردن کے شاہ عبداللہ کی طرف سے ولی عہد کو اردن کا سب سے بڑا اعزاز پیش کیا گیا، گویا ہر طرف قائدانہ فتوحات کی راہ کھلی۔
ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں ایک مرتبہ پھر جامع بحث غیر رسمی انداز میں ممکن ہوئی۔ ایرانی ڈرونز سے خطے میں خطرات کی اڑان اور مشترکہ دفاعی حکمت عملی کے لیے مذہب وملت کے فرق سے بالاتر ہو کر سوچ بچار کی ٹھوس بنیاد رکھنے کی طرف پیش رفت پر خطے کے اندر اور باہر غور ہوا۔
اس بارے میں امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے اجتماعی فضائی دفاع کے لیے دو الگ الگ مسودہ ہائے قانون کا پیش کیے جا چکے ہیں۔
مزید یہ کہ ڈیموکریٹس اور ری پبلکن ارکان متحد ہیں اور امریکی شہریوں اور مقاصد کو ہر چیز پر اولیت دینے پر ایک ہو چکے ہیں۔
بطور امریکی صدر جو بائیدن کا پہلی بار دورہ مشرق و سطیٰ میں پہلے اسرائیل اور بعد ازاں سعودی عرب جانا طے کرنا۔
جو بائیڈن کے دورے سے پہلے ہی ولی عہد کا اوپیک کو تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے کہہ دینا تاکہ روس کے یوکرین پر حملے کے نتیجے میں توانائی کے بڑھے مسائل پر قابو پانے کے تعاون کا اشارہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان اپنی سیاسی وجغرافیائی محل وقوع اور دنیا بھر کے لئے ایک آزمودہ کار عسکری قوت کے طور بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی فوجی قیادت کا ایک ہفتے عشرے کے اندر دو مرتبہ سعودی عرب جانا۔
انہیں اعلی ترین ایوارڈ کا ملنا یقیناً جاری منظر نامے سے الگ کر کے دیکھنے کا رجحان نظر آئے گا۔ ان کی پاکستان سے باہر عزت واہمیت غیر معمولی ہے۔ یہ آنے والے دنوں مزید بڑھنے کی بنیاد ایوارڈ سے رکھی جا چکی ہے۔
اہم مذہبی رہنما مولانا فضل الرحمٰن بھی محض اڑھائی ماہ کے دوران دو مرتبہ سعودی گئے ہیں۔ جانے سے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے ان سے ایک غیر رسمی جگہ پر ملاقات کی تھی۔
لیکن اس کے باوجود جو بائیڈن کے لیے کچھ چیلنج بھی ہیں کہ انہیں اپنی عملیت پسندی کے جواز پیش کرنے سے پہلے ڈیموکریٹس اور امریکہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ماضی کی بیان کردہ پالیسی کو نظر انداز کرتے ہوئے یکطرفہ آگے بڑھنے کی کوشش کیوں؟
مغربی اردن میں بطور خاص یہودی بستیوں کی تعمیر کے بارے میں امریکی پالیسی اور موقف کا واضح ہونے کے باوجود خاموشی اور اسرائیلی سرپرستی میں غیر معمولی تسلسل کے بعد اسی بارے میں یکطرفہ تیزی کیوں۔ ؟
امریکی صدر کو فلسطینی نژاد امریکی شہری اور ممتاز صحافی شیریں ابو عاقلہ کے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں بہیمانہ انداز سے قتل ہونے پر اسرائیلی مذمت اور قتل کے ذمہ داروں کے لیے سزا سے گریز کیوں؟
حتی اس کے اہل خانہ کے مطالبے کے بعد بھی انہیں مغربی کنارے میں ملاقات کے لیے وقت نہ دینے کی پالیسی کس منطق کے تحت ہے ؟ کیا اس طرح مذکورہ بالا ساری پیش رفت کے خلاف ماحول خراب نہیں ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جن سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔