قید کی سزا کاٹنے والے ٹینس سٹار بورس بیکر کو جیل میں ساتھی قیدیوں کو کھیل سکھانے کے لیے سپورٹس سائنس ٹیچر کی نوکری دی گئی ہے۔
تین بار ومبلڈن جتنے والے بورس کو اپریل میں اپنے اثاثے چھپا کر دیوالیہ ہونے کی شرائط توڑنے کے جرم میں ڈھائی سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
اس کے بعد سے وہ آکسفورڈ شائر میں ہینلی آن ٹیمز کے قریب ایچ ایم پی ہنٹر کامبی میں واقع کیٹیگری سی جیل میں اپنی سزا کاٹ رہے ہیں۔
اب یہ رپورٹس ہیں کہ 54 سالہ جرمن کھلاڑی کو کلاس روم اسسٹنٹ بنا دیا گیا ہے جہاں وہ پی ای تھیوری اور ساتھی قیدیوں کو ورزش اور صحت مند خوراک کے فوائد سکھاتے ہیں۔
لیکن سابق عالمی نمبر ایک اور چھ بار کے گرینڈ سلام چیمپیئن بورس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ قیدی کی حیثیت مطلوبہ عرصے تک اس جیل میں نہیں رہے اور اس لیے وہ جیل کے جم میں کام نہیں کر سکتے۔
برطانوی اخبار دا سن نے جیل کے اندرونی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’یہ بالکل عیش و آرام کی زندگی نہیں ہے جس کے وہ (بورس) عادی تھے لیکن انہیں زیادہ تر قیدیوں سے بہتر سہولیات میسر ہیں۔‘
اخبار نے اسی اندورنی ذرائع کے دعوے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ ’جیل میں اس بات پر بہت زیادہ ناراضگی پائی جاتی ہے کہ بورس کو اتنی جلدی یہ کردار سونپ دیا گیا۔ کچھ قیدیوں کے اہل خانہ نے اس بارے میں شکایت بھی درج کرائی ہے۔‘
تاہم جیل سروس کے ترجمان نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ جیل کے گورنر نے بدھ کی صبح انہیں بتایا تھا کہ ان کے پاس اس معاملے پر کسی شکایت کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔
جیل کے ایک ترجمان نے کہا: ’یہ کہنا غلط ہو گا کہ کسی کے ساتھ ترجیحی سلوک کیا گیا ہے۔ مجرم جیل میں رہتے ہوئے مختلف قسم کے کام انجام دیتے ہیں اور تعلیم کے مواقع تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔‘
بورس بیکر کو اپریل میں انسولوینسی ایکٹ کے تحت چار الزامات میں قصوروار پایا گیا تھا جن میں ریموول آف پراپرٹی، جائیداد ظاہر کرنے میں ناکامی اور قرض چھپانے کے دو الزامات بھی شامل ہیں۔
سزا کی معطلی کی درخواست میں بورس بیکر کے وکیل نے استدلال پیش کیا تھا کہ سپورٹنگ سٹار پہلے ہی ’حقیقت میں سب کچھ کھو چکے ہیں‘ لیکن جج ڈیبورا ٹیلر نے کہا کہ بھلے ہی بورس کو شرمندگی محسوس ہوئی ہو لیکن انہوں نے سماعت کے دوران ’عاجزی کا مظاہرہ نہیں کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جج ٹیلر نے ساؤتھ وارک کراؤن کورٹ کو بتایا کہ رہائی کے لیے غور کیے جانے سے پہلے بورس کو اپنی نصف سزا کاٹنا پڑے گی۔
لیکن اگلے ہی مہینے دی سن نے دعویٰ کیا کہ حکومت کی ’ارلی ریموول سکیم‘ کے تحت بورس بیکر کو جرمنی بھیجا جا سکتا ہے۔
اخبار نے ایک ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’وہ بہت پراعتماد ہیں کہ وہ (بورس) کرسمس سے پہلے جرمنی واپس لوٹ جائیں گے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ کرسمس تک وہاں سے لائسنس پر آزاد ہو جائیں گے کیونکہ ان (جرمن) کا انصاف کا نظام بہت زیادہ نرم ہے۔‘
اصل میں جنگی قیدیوں جیسے لوگوں کو حراست میں رکھنے کے لیے ایک حراستی کیمپ کے طور پر بنایا گیا ہنٹر کامبی کو دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک جیل کے طور پر استعمال کیا گیا تھا اور 1983 تک یہ ایک بورسٹل یعنی نوجوانوں کا حراستی مرکز رہا۔
2000 سے اسے 15 سے 18 سال کی عمر کے لڑکوں کے لیے جیل کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور 2010 کے بعد اسے بالغ کیٹیگری سی کی تربیتی جیل میں تبدیل کیا گیا۔ 2012 سے اس میں صرف غیر ملکی مجرموں کو رکھا جاتا ہے۔
دسمبر 2020 میں کی گئی تازہ ترین انسپیکشن میں، جس کی رپورٹ پچھلے سال شائع ہوئی تھی، اس جیل کو ’اچھی قیادت والی اور ترقی پسند‘ جیل قرار دیا گیا تھا۔
ابتدائی نتائج میں کہا گیا تھا کہ یہ ’محفوظ، مہذب اور بامقصد‘ جیل ہے جس میں بہتر لائبریری اور ایک جم شامل ہیں حالانکہ حال ہی میں یہاں موجود آلات کو ’خستہ حال‘ قرار دیا گیا ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
اس خبر میں پریس ایسوسی ایشن کی اضافی رپورٹنگ شامل ہے۔
© The Independent