ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے ایک سینیئر مشیر نے اتوار کو الجزیرہ کی عربی سروس کو بتایا کہ تہران تکنیکی طور پر جوہری بم بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ آیا اسے بنایا جائے یا نہیں۔
کمال خرازی نے کہا: ’چند دنوں میں ہم 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور ہم آسانی سے 90 فیصد افزودہ یورینیم تیار کر سکتے ہیں... ایران کے پاس نیوکلیئر بم بنانے کے تکنیکی ذرائع ہیں لیکن ایران نے اسے بنانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔‘
2018 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تہران کے عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے سے دست بردار ہو گئے تھے۔
اس معاہدے کے تحت ایران نے اقتصادی پابندیوں سے نجات کے بدلے اپنے یورینیم کی افزودگی پر کام روک دیا تھا۔
ایران طویل عرصے سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے انکار کرتا آ رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ صرف عوامی توانائی کے مقاصد کے لیے یورینیم کو ریفائن کر رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تہران کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ پابندیاں ہٹاتا ہے اور معاہدے میں دوبارہ شامل ہوتا ہے تو وہ بھی بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزیوں سے پیچھے ہٹ جائے گا۔
ایران اور صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے درمیان بالواسطہ بات چیت، جس کا مقصد واشنگٹن اور تہران دونوں کو جوہری معاہدے کی تعمیل میں واپس لانا ہے، مارچ سے تعطل کا شکار ہے۔
خرازی نے کہا کہ تہران اپنے میزائل پروگرام اور علاقائی پالیسی پر کبھی بھی بات چیت نہیں کرے گا، جیسا کہ مغرب اور مشرق وسطیٰ میں اس کے اتحادیوں کا مطالبہ ہے۔