ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے اتوار کو کہا ہے کہ امریکہ 2015 کے ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لیے ہونے والے مذاکرات میں’نئی شرائط‘عائد کر رہا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایرانی نیوز ایجنسی ارنا کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ’پابندیاں اٹھانے کے معاملے میں وہ (امریکی) مذاکرات سے ہٹ کر نئی شرائط تجویز کرنے اور عائد کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ’آخری دو یا تین ہفتوں میں امریکی وفد نے اضافی مطالبات کیے جن سے (معاہدے کے) متن کے بعض حصوں کی نفی ہوتی ہے۔‘
ایران ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لیے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں فرانس، جرمنی، برطانیہ، روس اور چین کے ساتھ براہ راست اور امریکہ کے ساتھ بالواسطہ طور پر بات کر رہا ہے۔ ایٹمی معاہدے کو جوائنٹ کمپریہنسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کہا جاتا ہے۔
امیرعبداللہیان نے کہا: ’امریکی براہ راست مذاکرات کی باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن ہمیں امریکہ کے ساتھ براہ راست بات چیت کا فائدہ دکھائی نہیں دیا۔‘
2015 کے معاہدے کے تحت ایٹمی پروگرام محدود کرنے کے جواب میں ایران پر عائد پابندیوں میں کچھ نرمی کی گئی تھی۔ ایٹمی پروگرام محدود کرنے کا مقصد ضمانت حاصل کرنا تھا کہ ایران ایٹم بم نہ بنا سکے۔ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی ہمیشہ تردید کرتا ہے۔ 2018 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے دور میں امریکہ ایٹمی معاہدے سے الگ ہو گیا تھا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا: ’ہم پابندیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن وقار اور قائم رہنے والے معاہدے کے ساتھ۔ ایران نے اس کی شرائط کی پابندی کی ہےاور کرے گا۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکی صدر جوبائیڈن کو چاہیے کہ وہ ایٹمی معاہدے کی بحالی کے معاملے میں اپنی جانب سے خیرسگالی کے اظہار کے لیے ایران پر عائد کچھ پابندیاں اٹھا لیں۔
ایرانی وزیر خارجہ کے بقول: ’اگر بائیڈن پابندیاں اٹھانے اور معاہدے میں واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں تو انہیں ایران میں فطری اور قانونی طور پر موجود افراد پر پابندیاں لگانے کی بجائے خیرسگالی ظاہر کرنے کے لیے انتظامی حکم جاری کرنا چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ’ہم کئی مواقعے پر امریکیوں کو بتا چکے ہیں کہ وہ معاہدے سے پہلے ایک یا دو عملی قدم اٹھائیں۔ مثال کے طور پر غیر ملکی بینکوں میں موجود کچھ اثاثے غیر منجمد کیے جائیں۔‘