ہم حیرت کدے کے مکین ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں بچوں کی کہانیاں جس میں سب ممکن ہوتا ہے، سکول کی حد تک رہتی ہیں مگر یہاں کب کیا ہو جائے والا سوال سارے معاشرے پر طاری رہتا ہے۔ اس کا کوئی کتابی یا اصولی جواب یقین سے نہیں دیا جا سکتا ہے۔
میڈیا پر ایک جانب اتنا کنٹرول ہے کہ اس صنعت سے منسلک افراد ہی نہیں، ناظرین بھی جانتے ہیں کہ کیا دکھایا جا سکتا ہے اور کہاں پر جل جاتے ہیں۔ آصف زرداری کا ایک انٹرویو کنٹرول کا تازہ ثبوت ہے۔ وہ انٹرویو جو اگر نشر ہو جاتا تو یقیناً اتنی شہرت حاصل نہ کر پاتا جتنی وہ اب کر چکا۔ پھر یہ کیسے ہوا کہ مریم نواز کی تمام پریس کانفرنس سارے میڈیا پر نشر ہوئی، حتیٰ کہ اس چینل پر بھی جو شریف خاندان سے کھلی مخالفت رکھتا ہے۔ ایک دوسرے چینل نے احتیاط کرتے ہوئے اس وقت براہ راست نشریات کا سلسلہ روکا جب مبینہ ویڈیو چلائی جانے لگی تھی، پھر دوبارہ دکھانا شروع کر دیا۔ کس کی اجازت سے؟
میں آگے بڑھ کے کہتا ہوں کہ آج کے حالات میں صرف اجازت ہی نہیں بلکہ واضح حکم کے بغیر کسی ٹی وی چینل کی جرات نہیں تھی کہ وہ اس پریس کانفرنس کو لائیو دکھاتا۔ بنیادی سوال صرف یہ ہے کہ کس کے ایما پر پریس کانفرنس کو دکھانا ممکن ہوا؟
اس سوال کا جواب موجودہ پہیلی کے تالے کی چابی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ چئیرمین کی ایک مبینہ ویڈیو سامنے آئی تھی اور اس چینل کا مالک خود خان صاحب کا ہی مشیر تھا جس کو آدھی رات کو نہ صرف فارغ کر دیا گیا بلکہ یقینی بنایا گیا کہ رات گئے خبر نشر ہو۔
سیاسی میدان میں یہ بحث اب ثانوی ہی نہیں بچکانہ حیثیت رکھتی ہے کہ ویڈیو جعلی تھی یا نہیں، جو کہا گیا اس کی عدالت میں کیا حیثیت ہو گی، وغیرہ۔ اصل مقصد حاصل ہو چکا۔ اور وہ ہے نواز شریف کے خلاف تمام عدالتی کارروائی کو مشکوک بنانا۔ یہ وہ کیس تھا جہاں سے نواز شریف کے پیر بندھنا شروع ہوئے تھے۔ گرہ وہیں سے کھلنی شروع ہوئی ہے جہاں سے پہلی بار بندھی تھی۔
کچھ سوالوں پر غور کریں
کیا یہ ویڈیو حال ہی میں مریم نواز کو ملی ہے یا پہلے سے ان کے پاس تھی؟ اس کو دکھانے کا وقت اور دن کیا اہمیت رکھتا ہے؟ مریم نواز نے کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ وہ کس خطرے میں گھر سکتی ہیں اور دھمکی دی کہ اگر ان کے ساتھ کوئی شرارت ہوئی تو دوسری ویڈیوز سامنے لے آئیں گی جن میں نام لیے گئے ہیں۔ یہ دھمکی وہ کس کو دے رہی تھیں؟ حکومت کو، اداروں کو یا چند افراد کو؟
مریم نے کہا کہ جیسا کہ انہوں نے پہلے کہا تھا کہ وہ باپ کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں وہ حد یہ ہے۔ سوال ہے کہ حدوں کے پار کیا ہے؟ اس پریس کانفرنس سے قبل خبریں آنا شروع ہوئیں کہ نواز شریف کے لیے گھر کا کھانا بند، ہفتے میں صرف ایک ملاقات کی اجازت، عمران خان کا اعلان کہ وہ موت کو گلے لگا سکتے ہیں وغیرہ۔ اس سختی کی ضروت کیوں پیش آئی؟ کیا انہیں اندازہ تھا کہ کچھ ہونے والا ہے؟
اس سے قبل مریم نواز کی پریس کانفرنس اس 22 جون 2019 کے دن رکھی گئی تھی جس دن امیر قطر نے پاکستان آنا تھا اور ان کے طیارے کی لینڈنگ سے چند ہی منٹ قبل یہ پریس کانفرنس ختم کر دی گئی تھی۔ امیر قطر اور شریف خاندان کے تعلقات کیا ہیں، وہ سپریم کورٹ میں پیش ہونے والے مشہورِ زمانہ قطری خط میں بیان ہو چکے ہیں۔ میں مان ہی نہیں سکتا کہ امیر قطر نے وزیر اعظم عمران خان سے نواز شریف کی سفارش نہ کی ہو۔ اس کا جواب خان صاحب نے عوامی طور پر دے بھی دیا کہ وہ کسی بادشاہ کی سفارش نہیں مانیں گے۔
کیا بادشاہ کو انکار کرنے کا کوئی تعلق اس ویڈیو دکھانے کی اجازت سے ہے؟
حکومت جانتی ہے کہ خان صاحب بیرون ملک پاکستانیوں سے وہ رقوم حاصل نہ کر پائے جس کا انہیں یقین تھا۔ وہ سادہ سے سادہ الفاظ میں بھی ہر اس بات پر یو ٹرن لے چکے ہیں جو ان کو روایتی سیاست سے جدا کرتی تھی۔ ان کی پارٹی اپنی حقیقت میں ایک فین کلب کے سوا کچھ نہیں۔ چین آف کمانڈ تو دور کی بات، سیکنڈ ان کمانڈ تک کوئی نہیں۔ خان صاحب ہر وہ رسک لیے چلے جا رہے ہیں جس کی قیمت انہیں ادا نہیں کرنی۔
سیاسی اور حقیقی دنیا بہرحال اور ہے۔ خان صاحب تو زیادہ سے زیادہ چار حرف بھیج کر نتھیا گلی یا لندن میں اداسیوں کا علاج ڈھونڈنے کی کوشش میں زندگی گزار دیں گے، ریاست کو یہ سہولت میسر نہیں۔ حکومت نے تو یہیں رہنا بھی ہے اور باقی دنیا کے ساتھ صرف چلنا ہی نہیں مدد بھی مانگنی ہے۔ اس صورت میں وہ کیا کریں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس ماہ خان صاحب امریکی دورے پر روانہ ہو رہے ہیں اور امریکی صدر سے ان کی ملاقات بھی طے ہے۔ کیا اس دورے کا کوئی تعلق اس پریس کانفرنس سے ہے؟ ایک اہم عہدے کے حوالے سے مستقل بحث جاری ہے کہ کوئی نیا آئے گا یا ایکسٹینشن دی جائے گی؟
قانونی نکات کی بحث عدالتی کارروائی میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ہوتی ہے یا وکلا کے لیے، عوامی سیاست کا اس سے گہرا تعلق نہیں ہوتا جس کا ثبوت خود ہماری عدالتی اور سیاسی تاریخ ہے۔
زیر بحث جج کا بیان سامنے آ چکا، مگر یہ بتانا بےکار ہے کہ اس کو کتنی عوامی اہمیت حاصل ہوئی۔ میڈیا پر زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کی خواہش ہو یا مخالفت کو سختی سے دبانا ہو، یہ ایک ہی کیفیت کا اظہار ہے اور وہ ہے بڑھتا خوف۔ سادہ سی بات ہے کہ حفاظتی اقدامات وہیں زیادہ ہوتے ہیں جہاں عدم تحفظ زیادہ ہوتا ہے۔
کل کی پریس کانفرنس جسے وہ نشر ہونے سے روک نہ پائے، اس کے بعد خان صاحب کا اعتماد کہاں پر ہو گا۔ اس وقت خبروں کے مطابق خان صاحب پھر نتھیا گلی میں ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اہل خانہ بھی ان کے ساتھ ہیں، ممکن ہے خوابوں کا علم انہیں مشکلات سے نکالنے کا حل پہاڑوں پر جانا بتاتا ہو مگر مشکل پھر وہی کہ روحانی علوم اگر اقتدار کو حاصل کرنے یا اسے بر قرار رکھنے میں معاون ہوتے تو آج دنیا کے معاملات صوفیوں کے پاس ہوتے، ایسا نہیں ہے۔
شہباز شریف اس پریس کانفرنس میں بیٹھے تو تھے مگر ان کا عدم اطمینان سب پر واضح تھا۔ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ ویڈیو ویڈیو کے اس کھیل میں انہیں خوف تھا کہ ان کے خلاف بھی کچھ سامنے آ سکتا ہے؟
حکومت کے بس میں اور کچھ تھا یا نہیں اتنا تو وہ کر سکتی تھی کہ مریم نواز کی پریس کانفرنس کا جواب کسی سینیئر پارٹی لیڈر سے دلوا سکتی۔ کیا جہانگیر ترین، اسد عمر، حتیٰ کہ بابر اعوان بھی دستیاب نہیں تھے کہ یہ ذمہ داری فردوس عاشق اعوان پر ڈال دی گئی؟
جو نقصان مریم نواز نہیں پہنچا سکیں وہ فردوس عاشق نے کمزور دفاع سے پہنچا دیا۔ مریم نواز اور مریم اورنگزیب کا فرق بھی حکومت نہیں جان سکتی تو پھر اسے کسی سازش سے کیا سروکار، وہ خود ہی اپنے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہے۔
یہ سب اتنا سادہ نہیں کہ فوراً حتمی نتیجے پر پہنچا جا سکے۔ وجہ پھر وہی کہ ہم حیرت کدے کے مکین ہیں۔ یہاں کب کیا ہو جائے کچھ پتہ نہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ ہم اس ماحول میں سرمایہ کاری ڈھونڈھتے ہیں۔