سپریم کورٹ میں سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کی جانب سے وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کے دوران جج جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا ہے کہ ان کی آنکھیں بند نہیں ہیں، توہین عدالت کا الزام لگایا جا رہا ہے، اسے ثابت کیا جائے۔
جسٹس اعجازالاحسن کا مزید کہنا تھا کہ ’توہین عدالت کا جو الزام لگایا ہے اسے ثابت کریں پتہ چلے عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی ہے یا نہیں۔ ہم یہاں پر بیٹھے ہیں ہماری آنکھیں بند نہیں۔ ہماری نظر اپنے حکم نامے پر بھی ہے اور قانون پر بھی ہے۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے مزید کہا کہ ’عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی یا قانون سے انحراف پہ آنکھیں بند نہیں کریں گے، اگر ریاستی مشینری سے بندے اٹھائے جائیں تو یہ فوجداری جرم ہو گا۔ جب یہ جرم ہوگا توہین عدالت تب ہو گی۔ کسی جرم کو پہلے فرض نہیں کر سکتے۔‘
سپریم کورٹ نے راناثنا اللہ کے خلاف توہین عدالت کی سماعت میں پی ٹی آئی کو توہین عدالت سے متعلق مزید شواہد عدالتی ریکارڈ میں لانے کا حکم دے دیا اور سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ میں جمعرات کو ساڑھے گیارہ بجے سماعت کے آغاز پر سپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل فیصل چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ ’ہم نے تین اراکین صوبائی اسمبلی کا بیان حلفی جمع کرایا ہے۔‘
فیصل چوہدری نے کہا کہ ’رانا ثنااللہ نے ہمارے بندے ادھر ادھر کرنے کا بیان دیا۔ ہمارے ایم پی اے مسعود مجید کو 40 کروڑ میں خرید کر ترکی سمگل کردیا گیا۔ ن لیگ کی ایم پی اے راحیلہ نے ہمارے تین اراکین کو وزیر داخلہ عطا تارڑ سے بات کروا کر پیسوں کی پیشکش کی۔ 25 25 کروڑ روپے آفر کیے جا رہے ہیں۔‘
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’کس تاریخ کو فون کرکے پیسوں کی آفر کی گئی، اوتھ کمشنر نے تاریخ نہیں لکھی۔ اوتھ کمشنر کو اتنا بھی نہیں پتہ کہ بیان حلفی کی تصدیق سے قبل تاریخ درج کرنا لازم ہوتا ہے۔ معذرت کے ساتھ وکیل صاحب آپ کو تاریخ کا پتہ نہیں، یہ عجیب بات ہے۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ ’ہمارے یکم جولائی کے فیصلے کی کیسے خلاف ورزی ہوئی؟ آپ عطا تارڑ اور راحیلہ کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کا کہہ رہے ہیں۔ آپ نے توہین عدالت درخواست میں تو عطا تارڑ اور راحیلہ کو فریق ہی نہیں بنایا۔‘
جسٹس منیب اختر نے اس موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم توہینِ عدالت کی کارروائی میں ازخود نوٹس نہیں لے سکتے۔ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ اصول واضح کر چکا ہے، ازخود نوٹس صرف چیف جسٹس لے سکتے ہیں۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے وکیل فیصل چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’آپ کو پانچ لوگ ادھر ادھر ہو جانے کے بیان پہ اعتراض ہے اگر ریاستی مشینری استعمال ہونے کی بات ہے تو یہ فوجداری معاملہ ہے۔ ہم محض مفروضے کی بنیاد پر کیسے توہینِ عدالت کی کارروائی چلائیں؟ جب کچھ ہوگا تو ہوگا۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے پرویز الہی کے وکیل سے سوال کیا کہ ’کیا آپ نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا؟ کیا اس کیس میں الیکشن کمیشن فریق نہیں ہے؟‘
فیصل چوہدری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’میری اطلاع کے مطابق رجوع نہیں کیا گیا۔ قانون کے مطابق انتخابات الیکشن کمیشن نے نہیں کروانے۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ’پھر یہ بتائیں کہ توہین عدالت کہاں ہوئی؟ جو آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ تو محض سیاسی بیانات ہیں۔ انتخابات سے قبل بلند و بانگ دعوے کرنا، بیانات دینا عام سی بات ہے۔‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’ہمیں اندازہ ہے پنجاب میں وزیراعلیٰ کے انتخاب پر سخت مقابلہ ہے، دونوں اطراف میں شدت ہے۔‘
پرویز الہی کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ کہ ’اب تو عدالت کے سامنے اراکین اسمبلی کے بیان حلفی بھی آ چکے ہیں۔ تکنیکی پہلوؤں کو الگ رکھ لیتے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیسے ایک طرف رکھیں پہلے ثابت تو کریں۔‘
کیس سے متعلق تحریک انصاف نے تین ارکان صوبائی اسمبلی کے بیان جمع کرا دیے جبکہ اس پارٹی نے راجہ بشارت کے ٹویٹ کی کاپی بھی جمع کرا دی۔ اس پر عدالت نے کہا کہ ’بیان حلفی کا تو توہینِ عدالت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔‘
’یہ میڈیا میں سپیس لینے کے لیے کیا گیا‘
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ان کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی پٹیشن پر کہا ہے کہ یہ سب میڈیا میں سپیس لینے کے لیے کیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’سپریم کورٹ میں یہ جو میرے خلاف گئے تھے کہ میں نے کہا ہے کہ ان کے بندے ادھر ادھر ہو جائیں گے، حالانکہ یہ بنتا نہیں تھا مگر میڈیا میں سپیس لینے کے لیے گئے۔‘
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے ان کی پٹیشن کو اس قابل نہیں سمجھا کہ مجھے بلا کر پوچھا جاتا۔‘
انہوں نے اپنے بیان کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے اس بات کا امکان ظاہر کیا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں آج بھی کہہ رہا ہوں کہ پی ٹی آئی کی صفوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کا ضمیر زندہ ہے اور جو شعور رکھتے ہیں۔ وہ چوہدری پرویز الہی کو ووٹ کاسٹ نہیں کریں گے۔‘
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’سیاسی طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہی پنجاب اسمبلی کے قائد منتخب ہونے کا حق و صلاحیت نہیں رکھتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چوہدری پرویز الہی خود کہتے ہیں کہ اگر عمران خان کہیں تو میں دو سکینڈ میں اسمبلی توڑ دوں گا۔‘
’سیاسی طور پر ہم سب کے ساتھ رابطے کر رہے ہیں، یہ ہمارا سیاسی اور جمہوری حق ہے۔‘
پنجاب کے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے حوالے سے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’کل جو الیکشن ہونے جا رہا ہے اس میں ہم اپنے سیاسی آپشن بھرپور انداز سے استعمال کریں گے۔‘
درخواست گزار کا موقف کیا ہے؟
سپریم کورٹ میں پرویز الہیٰ نے رانا ثنا اللہ، حمزہ شہباز اور مریم اورنگزیب کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی جس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ رانا ثنا اللہ نے ان کے پانچ اراکین صوبائی اسمبلی کو غائب کرنے کی دھمکی دی ہے جو توہین عدالت کے مترادف بیان ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ یکم جولائی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے الیکشن کا فیصلہ دے چکی ہے لہذا رانا ثنااللہ، حمزہ شہباز، مریم اورنگزیب کو عدالت میں طلب کیا جائے اور تینوں ملزمان کے خلاف عدالتی حکم عدولی پر توہین عدالت کی سزا دی جائے۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ حمزہ شہباز عدالت کو وزارت اعلیٰ کا انتخاب پرامن طور پر کرانے کی یقین دہانی کراچکے ہیں۔ ’رانا ثنا اللہ کے بیان سے تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کے ممبران میں خوف و ہراس پیدا ہوا ہے۔ رانا ثنا اللہ عدالتی احکامات کی تعمیل میں رکاوٹ پیدا کررہے ہیں۔‘
سپریم کورٹ میں سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کی جانب سے وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا ہے کہ توہین عدالت کا الزام ثابت کریں۔