سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز کے شہر مورو سے تعلق رکھنے والے امیر علی ایک پارک میں بچوں کو فزکس اور ریاضی کی کلاسز دیتے ہیں، جسے بہت سراہا جارہا ہے۔
25 سالہ امیر پچھلے تین سال سے درس و تدریس کے عمل سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے جامعہ سندھ سے ریاضی میں بی ایس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور ایک نجی سکول میں ریاضی اور فزکس کے مضامین پڑھاتے رہے ہیں۔
امیر کچھ عرصے سے مورو کے چلڈرن پبلک پارک میں طلبہ کو فزکس اور ریاضی کی تعلیم دے رہے ہیں۔ پارک میں باقاعدگی سے کلاسز لینے کا یہ عمل جہاں لوگوں کے لیے غیر معمولی ہے، وہیں لوگ ان کے اس قدم سے خوش بھی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں امیر نے بتایا: ’میں نے پارک میں کوچنگ لینے کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ جگہ کا کرایہ نہیں دینا پڑتا اور میرے پاس پڑھنے والے طلبہ معاشرے کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ ٹیوشن دلوانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔‘
انہوں نے بتایا: ’میں یہاں شاگردوں سے ان کی حثیت کے مطابق فیس لیتا ہوں اور اگر کوئی میرے پاس پڑھنا چاہتا ہے اور اس کے پاس مجھے دینے کے لیے پیسے نہیں تب بھی کوئی بڑی بات نہیں۔ میں ان کو بغیر کسی فیس کے پڑھانا پسند کروں گا۔‘
امیر اپنے لیکچرز فیس بک پر لائیو بھی چلاتے ہیں، جس کا مقصد ان تمام طلبہ تک اپنی بات پہنچانا ہے جو اس پارک میں ان کے لیکچرز سے مستفید نہیں ہو پاتے۔
انہوں نے بتایا: ’ایک بہت بڑی تعداد تو لڑکیوں کی ہے جو کسی سینٹر تک نہیں پہنچ پاتیں اور اگر میرے فیس بک لائیو سے پانچ، دس لوگوں کو موضوع سمجھ آگیا تو میرے لیے یہ کسی خوشی سے کم نہیں۔‘
پارک میں رکھے سفید بورڈ پر طلبہ کو سبق دیتے امیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو مزید بتایا: ’دور حاضر کا سب سے بڑا کمیونیکیشن ٹول سوشل میڈیا ہے، یعنی یوٹیوب، فیس بک اور ایسی تمام ایپلیکیشنز جن سے آپ اپنے کام کو زیادہ لوگوں تک باآسانی پہنچا سکتے ہیں۔ اس دور میں ان تمام برقی آلات کے استعمال کی سب کو سمجھ ہونی چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امیر سمجھتے ہیں کہ تعلیم کو کمرشلزم جیسی لالچ سے پاک ہونا چاہیے جبکہ درحقیقت ہمارے ہاں بڑے بڑے کوچنگ سینٹرز میں بھاری معاوضوں پر پڑھانے والے استادوں کے لیے تمام طالب علم ایک صارف کی حیثیت رکھتے ہیں، جنہیں تعلیم دینے کے بجائے، فروخت کی جاتی ہے۔
وہ ریاضی سکھانے والوں پر بھی تنقیدکرتے ہیں۔ ان کے بقول: ’بچوں کو جب ریاضی سکھائی جاتی ہے تو استادوں کو لگتا ہے کہ کلاس میں بیٹھے تمام بچے سیکھنے کی ایک جیسی ہی صلاحیت رکھتے ہیں جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور بڑے سینٹرز میں تو استاد کے پاس دو منٹ بھی نہیں ہوتے کہ شاگرد کو الگ سے دے سکے۔ جس کے باعث شاگردوں کے کانسیپٹ درست نہیں ہو پاتے اور وہ اس بہترین مضمون سے دور بھاگتے پھرتے ہیں۔‘
امیر علی اپنے پاس آنے والے شاگردوں کو سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں کے ساتھ پاکستان کے دوسرے صوبوں کی کتابوں سے بھی پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’جب بڑے امتحانات کے لیے ٹیسٹ مرتب کیے جاتے ہیں تو ملک بھر کی کتابوں سے سوالوں کو ٹیسٹ میں شامل کیا جاتا ہے۔ میں نہ صرف دوسرے صوبوں کی کتابیں پڑھتا ہوں بلکہ ان پر محنت بھی کرتا ہوں اور اہم اہم چیزیں اپنے پاس آنے والے شاگردوں سے شیئر بھی کرتا ہوں۔‘
امیر استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی ایکٹوسٹ اور کسان دوست ہیں۔ وہ اپنے شہر میں مزدوروں کی اجرت اور ان کے دوسرے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے ریلیاں بھی منظم کرتے ہیں۔