’دعا زہرہ کی تصویر سوشل میڈیا پرکیوں شیئر کی گئی‘

وکیل جبران ناصر نے کہا کچھ لوگ دعا زہرہ کی تصویر شیئر کرکے سمجھ رہے کہ وہ ان کے والدین کی مدد کررہے ہیں، مگر یہ غلط ہے۔

دعا زہرہ اور ان کے مبینہ شوہر کو پانچ جون کو پنجاب سے حراست میں لینے میں کے بعد چھ جون کو سندھ ہائی کورٹ میں پیش  کیا گیا (سکرین گریب/ فائل)

کراچی سے پنجاب جا کر مبینہ طور پر پسند کی شادی کرنے والی لڑکی دعا زہرہ کو عدالت کے حکم پر اتوار کی شب واپس کراچی منتقل کر دیا گیا۔

دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی کے وکیل جبران ناصر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ دعا زہرہ کو بذریعہ موٹروے لاہور سے کراچی منتقل کیا گیا۔ 

دوسری جانب لاہور سے کراچی منتقلی کے دوران ایک جگہ پر پولیس اور سکیورٹی کے لیے مختص افراد کے ہمراہ دعا زہرہ کی ایک تصویر لی گئی، جس میں ان کو مسکراتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ 

یہ تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ 

تصویر پر تبصرہ کرتے ہوئے جبران ناصر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مجھے حیرت ہے کہ یہ تصویر کس جگہ پر اور کیوں لی گئی۔ جبکہ بچی اس وقت پولیس کسٹڈی میں تھی، جن کا کام تھا بچی کو حفاظت سے پہنچانا۔ کس مقصد کے لیے یہ تصویر سوشل پر شائع کی گئی؟‘

’کیا یہ تصویر بچی کو لانے والے پولیس افسران نے اپنے اعلیٰ افسران کے لیے بنائی؟ اگر ایسا تھا تو یہ تصویر سوشل میڈیا پر کیسے آئی؟ کچھ لوگ یہ تصویر شیئر کرکے سمجھ رہے ہیں کہ وہ دعا کے والدین کی مدد کر رہے ہیں، مگر یہ غلط ہے۔‘ 

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ابھی یہ کیس حل نہیں ہوا، ابھی تو ٹرائل اور مزید تفتیش ہونی ہے۔

’مجھے یہ دیکھ کر دکھ ہوا۔ میں چاہتا ہوں کہ بچی کا کوئی بھی ڈجیٹل ریکارڈ نہ ہو۔ کل اس بچی نے اپنی نئی زندگی کا آغاز کرنا ہے، کوئی جاب کرنی ہے، تو کوئی کیوں ان کا نام گوگل میں لکھ کر یہ دیکھے کہ کیا ہوا تھا۔‘

اس سے قبل لاہور میں جوڈیشل مجسٹریٹ نے دعا زہرہ کو کراچی بھیجنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے تحریری فیصلے میں حکم دیا تھا کہ پولیس دعا زہرہ کو عدالت میں پیش کرنے سے پہلے کسی کے حوالے نہ کرے، اس کے تحفظ کو یقینی بنائے اور مرضی کے بغیر دعا سے کسی کو نہ ملنے دیا جائے۔

دعا زہرہ کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کراچی میں رکھا گیا ہے۔ جہاں فول پروف سکیورٹی اور حفاظتی انتظامات کئے گئے ہیں اور کسی کو بھی اس سے ملنے کی اجازت نہیں۔ 

جبران ناصر نے مختلف اخبارات میں چھپنے والی خبروں کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ دعا زہرہ کو 26 جولائی کو نہیں بلکہ یکم اگست کو متعلقہ ٹرائل کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے جبران ناصر نے بتایا: ’دعا کو یکم اگست کو ہی عدالت میں پیش کرنا ہے، مگر کچھ میڈیا والوں نے مختلف وکلا کے حوالے سے لکھا کہ دعا کو 26 جولائی کو عدالت میں پیش کیا جائے گا، جس میں صداقت نہیں۔‘ 

انہوں نے کہا: ’یکم اگست سے پہلے دعا کو اس صورت میں عدالت میں پیش کیا جائے گا کہ کیس کے دونوں فریقین میں سے کوئی ایک عدالت کو درخواست دے کہ دعا زہرہ کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ ہمارے طرف سے کوئی درخواست نہیں گئی اور ہم نے معلوم کیا ہے کہ مخالف پارٹی والوں نے بھی تاحال کوئی درخواست نہیں دی۔‘ 

واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے دعا زہرہ نے لاہور کی ایک عدالت میں درخواست دی تھی کہ ان کے مبینہ شوہر کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہیں ہیں اور انہیں دارالامان منتقل کیا جائے۔  

درخواست میں دعا زہرہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

درخواست پر مجسٹریٹ رضوان احمد کی عدالت نے ان کی استدعا قبول کرتے ہوئے دعا زہرہ کو لاہور کے دارالامان منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔ 

اس سے قبل چار جولائی کو سندھ میں دعا زہرہ کی عمر کے تعین کے لیے قائم میڈیکل بورڈ نے اپنی رپورٹ میں متفقہ طور پر دعا زہرہ کی عمر تقریباً 15 سال درج کی تھی۔

کراچی میں جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی آفتاب احمد بگھیو کی عدالت میں ڈاؤ میڈیکل کالج کی پرنسپل نے بورڈ کی سیل شدہ رپورٹ جمع کرائی تھی، جس میں لکھا ہے دو جولائی کو  دعا کا معائنہ کیا گیا تھا اور ان کے جسم کے مختلف اعضا کے ایکسرے کیے گئے۔

میڈیکل بورڈ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ جسمانی معائنے کے بعد دعا زہرہ کی عمر 14 سے 15سال کے درمیان ہے۔

بورڈ کے مطابق دانتوں کی جانچ کے مطابق ان کی عمر 13 سے 15 سال کے درمیان ہے جبکہ ہڈیوں کی جانچ کے بعد ان کی عمر 16 سے 17 سال تک بتائی گئی ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ دعا زہرہ کو کراچی منتقل کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے اور تفتیشی افسر کو دعا کو شیلٹر ہوم کراچی منتقل کرنے کی اجازت دے دی۔

جس کے بعد دعا کے والد نے سندھ ہائی کورٹ کو ان کو لاہور سے کراچی منتقل کرنے کی درخواست دی۔ 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان