سندھ ہائی کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ دعا زہرہ کو کراچی منتقل کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے اور تفتیشی افسر کو دعا زہرہ کو شیلٹر ہوم کراچی منتقل کرنے کی اجازت دے دی۔
دعا زہرہ کے والد کی درخواست پر جمعرات کی صبح سماعت کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
دوپہر کے بعد سنائے گئے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ دعا زہرہ کیس کا مرکزی کردار ہے ان کی کراچی میں موجودگی ضروری ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق بظاہر دعا زہرہ اپنے شوہر کے ساتھ بھی ناخوش ہیں اور ساتھ رہنا نہیں چاہتیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’دعا زہرہ والدین سے بھی خوفزدہ ہیں اس لیے شیلٹر ہوم میں رہنا مناسب ہے۔ دعا زہرہ کے اغوا سے متعلق ٹرائل کورٹ ہی حتمی فیصلہ کرے گی۔‘
دوسری جانب ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن شرقی کی عدالت نے دعا زہرہ کے مبینہ اغوا کیس میں نامزد دعا کے شوہر ظہیر احمد اور شبیر کی عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے ملزمان کو ایک، ایک لاکھ روپے ضمانت جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے سماعت 25 جولائی تک کے لیے ملتوی کر دی۔
اس سے قبل کراچی پولیس کا کہنا تھا کہ اس نے دعا زہرہ کے مبینہ شوہر ظہیر احمد کو سندھ ہائی کورٹ پہنچا دیا ہے جبکہ عدالت نے دعا کی کراچی منتقلی کے حوالے سے کیس میں فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
حفاظتی ضمانت لینے والے ظہیر احمد کو سندھ ہائی کورٹ پولیس کی سکیورٹی میں جمعرات کو عدالت پہنچایا گیا۔ پولیس کے مطابق انہیں گذشتہ رات لاہور سے تحویل میں لیا گیا۔
دعا زہرہ کی بازیابی سے متعلق ان کے والدین کی درخواست پر عدالت نے ملزم کو بھی نوٹس جاری کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے دعا زہرہ کی لاہور سے کراچی منتقلی کی درخواست پر بھی فیصلہ محفوظ کر لیا ہے، جو کچھ دیر میں سنایا جائے گا۔
دعا کے والد مہدی کاظمی نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی کہ ان کی بیٹی کو لاہور کے دارالامان سے کراچی لایا جائے، جس پر عدالت نے ملزم ظہیر احمد کو نوٹس جاری کیا تھا۔
سماعت کے دوران مہدی کاظمی کے وکیل جبران ناصر نے عدالت سے درخواست کی کہ دعا کو لاہور سے کراچی منتقل کیا جائے اور دارالامان کے بجائے محکمہ چائلڈ پروٹیکشن میں رکھا جائے۔
دعا زہرہ کے مبینہ شوہر ظہیر احمد کے وکیل عامر نیاز ایڈووکیٹ نے کہا کہ دعا کراچی میں کسی کیس میں مطلوب نہیں اور ان کو مرضی کے بغیر کراچی نہیں لایا جاسکتا۔
اس پر عدالت نے کہا کی ہم دعا کو والدین کے حوالے نہیں کر رہے۔ جرم کراچی میں ہوا ہے تو کیس کی سماعت بھی کراچی میں ہوگی، کیس کراچی میں زیر التوا ہے، یہاں بھی شیلٹر ہوم ہیں، کراچی میں بھی دعا کو کوئی خطرہ نہیں، یہاں کے شیلٹر ہوم میں بھی حفاظتی انتظامات کیے گئے ہوں گے، جب کہ دعا کے والدین بھی کراچی میں رہتے ہیں۔
دورانِ سماعت سندھ اور وفاقی حکومت کے وکلا نے بھی دعا زہرہ کو کراچی منتقل کرنے کی حمایت کردی جس پر عدالت نے لڑکی کی بازیابی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ عدالت نے کہا کہ درخواست پر فیصلہ آج ہی سنایا جائے گا۔
رواں ہفتے دعا زہرہ نے لاہور کی ایک عدالت میں درخواست درج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے مبینہ شوہر کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہیں ہیں اور انہیں دارالامان منتقل کیا جائے۔
درخواست میں دعا زہرہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
درخواست پر مجسٹریٹ رضوان احمد کی عدالت نے ان کی استدعا قبول کرتے ہوئے دعا زہرہ کو لاہور کے دارالامان منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس سے قبل چار جولائی کو سندھ میں دعا زہرہ کی عمر کے تعین کے لیے قائم میڈیکل بورڈ نے اپنی رپورٹ میں متفقہ طور پر دعا زہرہ کی عمر تقریباً 15 سال درج کی تھی۔
کراچی میں جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی آفتاب احمد بگھیو کی عدالت میں ڈاؤ میڈیکل کالج کی پرنسپل نے میڈیکل بورڈ کی سیل شدہ رپورٹ جمع کرائی تھی، جس میں لکھا ہے دو جولائی کو دعا کے معائنے کیا گیا تھا اور ان کے جسم کے مختلف اعضا کے ایکسرے کیے گئے۔
میڈیکل بورڈ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ جسمانی معائنے کے بعد دعا زہرہ کی عمر 14 سے 15سال کے درمیان ہے۔
بورڈ کے مطابق دانتوں کی جانچ کے مطابق ان کی عمر 13 سے 15 سال کے درمیان ہے جبکہ ہڈیوں کی جانچ کے بعد ان کی عمر 16 سے 17 سال تک بتائی گئی ہے۔
ڈاؤ میڈیکل کالج کی پرنسپل ڈاکٹر صبا سہیل کی زیر سربراہی قائم 10 رکنی خصوصی میڈیکل بورڈ نے نتیجہ اخذ کیا کہ دعا زہرہ کی عمر 15 سے 16 سال کے درمیان ہے اور 15 سال کے زیادہ قریب ہے۔