پاکستانی سیاست میں حیران کرنے کی صلاحیت میں سالہا سال سے کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ آج بھی بھرپور انداز میں صرف بڑھی ہے۔ سیاست دانوں سے معاملات آپس میں حل ہوتے نہیں اور نشانے پر بالآخر ریاستی ادارے آ جاتے ہیں۔ کبھی عدلیہ تو کبھی فوج پر تنقید۔
سیاست دانوں کی بیانیے کی دال جب عوام میں نہیں بکتی تو اپنے گریبان میں دیکھنے کی بجائے دوسروں کے گریبانوں تک پہنچ جانا آج کا سیاسی دستور بن گیا ہے۔ چاہے وہ حکمراں سیاسی جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) ہو یا حزب اختلاف کی بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف۔ دونوں ہی نہ الیکشن کمیشن سے خوش، نہ عدلیہ کے حامی اور نہ ہی فوج کے دلدادہ دکھائی دیتے ہیں۔
اب تازہ خبر یہ ہے کہ شہباز شریف کی مصالحتی ہانڈی کو ایک جانب رکھ کر میاں نواز شریف نے ’کم بیک‘ کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ اب دوبارہ مزاحمتی سیاست کریں گے۔ ملک معاشی اور سماجی مسائل کی دلدل میں اتنا پھنسا ہوا ہے کہ حکومت میں جو بھی آیا، اپنی مقبولیت قائم نہ رکھ سکا۔ اسی لیے ہم 2008 سے لے کر آج تک تین انتخابات میں تین مختلف پارٹیوں کی کامیابی اور حکومت بنانا دیکھ چکے ہیں۔ یہ بات تو واضح ہے کہ کے ٹو جیسے چیلنجوں سے نمٹنے میں متنازع کارکردگی نے دو کو دوبارہ اقتدار میں آنے نہیں دیا جبکہ تیسری قبل از وقت چلی گئی۔
اس تمام صورت حال میں یقینا اسٹیبلشمنٹ بھی دودھ میں نہائی نہیں رہی۔ اس کا کردار ماضی میں ایسا رہا کہ ان کی جانب انگلیاں اٹھتی رہی ہیں۔ لیکن اب تک انگلیاں کیا پورے ہاتھ اٹھ رہے ہیں، باضابطہ پریس کانفرنسیں ہو رہی ہیں اور الزامات لگ رہے ہیں۔ کبھی عدلیہ نے فوجی آمروں کو جو چاہیں کرنے کی کھلی چھٹی دی تو کبھی عوام کی بجائے اپنی پسند اور ناپسند کو انتخابات میں مقدم رکھا۔
ایک جانب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بظاہر نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے کارکن سوشل میڈیا پر حکومت کے خاتمے کے مبینہ ذمہ داروں پر توپیں برسا رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کا دفاع پی ٹی آئی کے چیئرمین نے یہ کہتے ہوئے کہا ہے کہ اپنی اسٹیبلشمنٹ اور فوج کو بچانے کے لیے تعمیری تنقید ضروری ہے۔ یہ تنقید تعمیری ہے یا تخریبی اس کی حد کا تعین کون کرے گا؟
دوسری جانب حکومتی اتحاد دل کھول کر براہ راست میڈیا پر الزامات کے انبار لگا رہے ہیں۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھی جانے والی مریم نواز کے اسلام آباد میں اخباری کانفرنس میں عدلیہ پر حملوں کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ اس حکمت عملی سے دیوالیہ پن کے قریب ملک میں کیا سیاسی استحکام آئے گا؟ کیا جسے سدھارنے کی کوشش کی جا رہی ہیں وہ سدھر جائیں گے؟ اس کا امکان بہت کم ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر اس وقت کوئی اتفاق رائے دکھائی دے رہا ہے حکومت اور اپوزیشن میں تو وہ یہ ہے کہ دونوں ہی اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنانے پر متفق ہیں اور دونوں ’مزاحمت‘ کے بیانیے میں اپنا بقا دیکھ رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں صورتوں میں اپنی مقبولیت قائم رکھنا مشکل ہے لہذا ایک دوسرے کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ بظاہر آسان ہدف ہے۔
سیاسی تجزیہ کار اور سیاسی تفریق کی دونوں اطراف سے نالاں عبدالقیوم کنڈی کہتے ہیں کہ ’عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان سیاست دانوں کی یہ ’مزاحمت‘ کس کے خلاف ہو گی کیونکہ جن سے شکوہ تھا وہ تو نیوٹرل ہو چکے۔ یا نہیں ہوئے؟
’ان سیاست دانوں کی سیاسی غلطیوں سے ہم اس پریشان کن صورت حال کو پہنچے ہیں اور آخر میں ابلتی سیاسی ہانڈی کو تڑکہ چوہدری شجاعت نے لگا دیا۔‘
اعلیٰ عدلیہ میں لوگوں کے مقدمات سالہا سال سے پھنسے ہوئے ہیں، ان کی پروا کیے بغیر روزانہ سیاسی معاملات جن پر بات پارلیمان کے اندر ہونی چاہیے عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ یا تو پارلیمان کو ختم کرکے اس پیسے پر ایک الگ نئی عدالت قائم کر دی جائے جو آئینی و سیاسی مشکلات پر روزانہ سماعت کیا کرے یا پھر پارلیمان کو اپنی عزت واپس دلانے کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے معاملے کی باقاعدہ سماعت کے آغاز سے قبل نو سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اپنی عدالت لگا کر اپنے فیصلے اور رائے دینی شروع کر دی ہے۔ اس روش سے کسی کی وقعت اور وقار نہیں بڑھے گا بلکہ سب عوام کی نظروں میں متنازع اور ’کمپورمائزڈ‘ بن جائیں گے۔ کسی حد تک یہ ہدف حاصل کیا بھی جاچکا ہے لیکن یہ سلسلہ اگر اسی طرح جاری رہا تو وہ دن دور نہیں کہ عوام کسی پر بھی بھروسہ نہیں کریں گے۔
اس وقت ضرورت شاید سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک قومی مشارورت کی ہے۔ زیادہ دیر کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ سب کو اپنے رویے بدلنے ہوں گے۔