پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے چک سواری میں توہین مذہب کے ملزم کو عدالت سے ضمانت ملنے پر ایک مذہبی جماعت کے کارکنوں نے مبینہ طور پر گولیاں مار کر قتل کر دیا۔
تئیس سالہ مقتول نوجوان کی لاش نماز جنازہ ادا کیے بغیر قبرستان کی بجائے مکان کے اندر دفن کر دی گئی۔
سفیان نامی مقتول نوجوان کے خلاف دو سال قبل توہین مذہب اور سائبرکرائم کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا گیا تھا تاہم راولپنڈی کی عدالت نے سابق میڈیکل رپورٹس کی بنیاد پر اسے ذہنی مریض قرار دے کر رہا کر دیا تھا۔
مقامی میڈیا کے مطابق واقعہ 23 جولائی کو ہفتے کو پیش آیا تاہم قومی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس واقعے کو کم ہی رپورٹ کیا گیا۔
مذہبی جماعت کے کارکنوں نے نوجوان کو گولیاں مارنے کے بعد مقامی پولیس سٹیشن میں جا کر اس کے قتل کا اعتراف کیا اورگرفتاری دے دی۔ جس کے بعد پولیس نے تین ملزمان کو مقامی عدالت میں پیش کر کے ان کا ریمانڈ حاصل کر لیا ہے۔
واقعے کے فوراً بعد سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں ایک شخص مسجد کے باہر مجمع سے خطاب کرتے ہوئے اس واقعے کی حمایت کرتے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ مقتول کی نماز جنازہ کی ادائیگی اور مسلمانوں کے قبرستان میں تدفین کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ مجمع میں شامل دو درجن کے قریب افراد نعرے لگا کر اس کی تائید کرتے ہیں۔
ویڈیو میں اس شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’عاشقان رسول نے اپنے حصے کا کام کر دیا اور باقی ذمہ داری ہم لوگوں کی ہے کہ ہم اس کی نمازہ جنازہ ادا نہ ہونے دیں اور نہ ہی اسے یہاں چکسواری میں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت دیں۔‘
پولیس نے اس ویڈیو کے حوالے سے کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اور واقعے سے متعلق بھی زیادہ تفصیلات بتانے سے گریز کیا ہے۔
تھانہ پولیس چک سواری کے ایس ایچ او عمیر رشید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک حساس معاملہ ہے اس پر صرف اعلیٰ افسران کو ہی بات کرنے کی اجازت ہے۔‘
تاہم چک سواری پولیس سٹیشن میں ہی تعینات ایک اور اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی ہے کہ ’مذہبی جماعت کے کارکنوں اور مقامی لوگوں نے مقتول کی نماز جنازہ ادا کرنے یا اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ جس کے بعد مقتول کی لاش کو بغیر پوسٹ مارٹم اس کے آبائی مکان کے اندر دفن کر دیا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اہلکار کے مطابق ’مقتول کی نماز جنازہ ادا ہوئی اور نہ ہی خاندان سے باہر کسی فرد نے تدفین کے عمل میں شرکت کی۔‘
اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر مذہبی جماعت سے منسلک کارکنوں کی ایک بڑی تعداد اس نوجوان کو ’گستاخ‘ قرار دے کر اس قتل کی حمایت کر رہی ہے اور قتل کرنے والوں کے اقدام کو سراہا جا رہا ہے۔
ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان کو قتل کرنے والی مذہبی جماعت کے کارکنوں کی عدالت میں پیشی کے دوران دو درجن کے قریب لوگ ان پر پھول پھینک رہے ہیں اور نعرہ بازی کر رہے ہیں۔
چک سواری کے ایک مقامی صحافی کے کے مطابق مقتول سفیان ایک مقامی موٹر سائیکل مکینک کا بیٹا تھا اور اس واقعے کے بعد سے اس کا خاندان اپنے مکان کے اندر محصور ہے اور باہر کسی کے ساتھ ان کا کوئی رابطہ نہیں۔
صحافی کے بقول ’سفیان کی حرکتوں کے باعث مقامی لوگوں نے پہلے ہی اس خاندان کا سماجی بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ اس واقعے کے بعد تو کسی کا کوئی رابطہ نہیں۔‘
23 سالہ سفیان پر الزام تھا کہ اس نے دو سال قبل سوشل میڈیا پر توہین مذہب کی اور اس کے خلاف گوجر خان میں مقدمہ درج ہوا اور وہ کئی ماہ تک ایف آئی اے کی حراست میں رہا۔
راولپنڈی کی عدالت نے ملزم کی میڈیکل رپورٹس کی بنیاد پر اسے ذہنی مریض قرار دیتے ہوئے ضمانت پر رہا کر دیا۔
ملزم دوبارہ جب اپنے علاقے میں پہنچا تو مذہبی جماعت کے دباو پر میرپور پولیس نے اس کے خلاف کوئی مقدمہ درج کرنے کی بجائے اس نقص امن کی دفعہ 16 ایم پی او کے تحت چھ ماہ کے لیے حراست میں لے لیا تھا۔
کچھ عرصہ قبل پولیس حراست سے رہائی کے بعد نوجوان روپوش ہو گیا تھا اور پھر گذشتہ ہفتے مذہبی جماعت کے کارکنوں نے رات گئے بھائی کے ساتھ گھر جاتے ہوئے اسے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں توہین مذہب کے الزام میں حالیہ عرصے میں یہ دوسرا قتل ہے۔
اس سے قبل میرپور کے قریبی بھمبر ضلع میں اسی جماعت کے کارکن نے توہین مذہب کا الزام لگا کر ایک ماں کو قتل کرنے کی کوشش کی اور ناکامی پر چھ ماہ کی بھتیجی کو ذبح کر دیا تھا۔