محمد عارف کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع مردان سے ہے اور گذشتہ تین سالوں سے باقاعدگی سے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرا رہے ہیں اور ان کے مطابق گوشوارے جمع کرانے سے ان کو مختلف مدوں میں فائدہ ہو رہا ہے تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ گوشوارے جمع کرانے کے طریقہ کار کو آسان بنانا چاہیے۔
پاکستان میں رہنے والا ہر ایک شخص چاہے تنخواہ دار ہو یا کاروباری، اس پر انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی شق نمبر 114 کے تحت انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانا لازمی ہے۔
عارف کے بقول: ’میرے پاس گاڑی ہے اور گاڑی کے ٹوکن ٹیکس میں مجھے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی وجہ سے 50 فیصد فائدہ ہورہا ہے یعنی میں فائلر ہوں تو گاڑی کی ٹیکس میں تقریبا چار ہزار روپے جمع کرتا ہوں لیکن اگر فائلر نہ ہوتا تو مجھے آٹھ ہزار روپے جمع کرانے پڑتے۔‘
انہوں نے بتایا کہ تین سال پہلے ان کو پتہ بھی نہیں تھا کہ انکم ٹیکس گوشوارے ہوتے کیا ہیں اور ان کے جمع کرانے کا فائدہ اور نقصان کیا ہے لیکن اب وہ سمجھ گئے ہیں کہ بطور فائلر مختلف جگہوں پر فائدہ مل رہا ہے۔
فائلر وہ شخص ہوتا ہے جو ہر سال ٹیکس گوشوارے جمع کرتا ہے جبکہ نان فائلر اس کو کہتے ہیں جو انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کراتا۔
عارف نے بتایا کہ ’کچھ عرصہ قبل میں نے ایک بین الاقوامی کمپنی کو اپنے خدمات فراہم کیں۔ کمپنی کی جانب سے جب ادائیگی کا وقت آیا تو مجھ سے پوچھا گیا کہ اگر آپ فائلر ہیں تو آپ سے 10 فیصد انکم ٹیکس اور اگر نان فائلر ہیں تو فیس سے 20 فیصد انکم ٹیکس کاٹا جائے گا جو حکومت پاکستان کی قوانین میں شامل ہے۔‘
تاہم عارف ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کے پیچیدہ نظام سے نالاں معلوم ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’ہر سال جب گوشوارے جمع کرانے کا وقت آتا ہے تو مجھے یہی ٹینشن ہوتی ہے کہ اب یا تو کسی ٹیکس ماہر کو پیسے دے کر گوشوارے جمع کرانے پڑٰیں گے اور یا کسی ماہر دوست کی منت سماجت کر کے کام ہوگا۔‘
عارف نے کہا کہ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کا نظام بہت پیچیدہ ہے اور ایک عام شخص چاہے جتنا بھی تعلیم یافتہ ہو، ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرسکتا کیوں کہ وہ آن لائن نظام کے لیے باقاعدہ ایک تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف رونیو کو چاہیے اس نظام کو آسان بنائے۔
عارف سے جب پوچھا گیا کہ جب سے آپ فائلر بنے ہیں تو آپ کو کوئی نقصان ہوا ہے۔ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جب میں فائلر نہیں تھا تو ایف بی آر کی جانب سے کارروائیوں نے ڈرا دیا تھا کہ ایسا نہ ہوں مجھے اثاثوں کے بارے میں پتہ نہ ہو اور ایف بی آر والے مجھ سے اثاثوں کے بارے میں پوچھ گچھ کریں۔
عارف نے بتایا: ’فائلر ہونے سے پہلے میری پاس گاڑی تھی جو میں نے تنخواہ سے کچھ بچت کر کے خریدی تھی۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ ایف بی آر والے اگر مجھ سے پوچھیں کہ یہ گاڑی کیسی خریدی ہے، تو میرے پاس کوئی جواب ہوگا کیوں کہ وہ تو میں دو تین ہزار ماہانہ بچت کر کے گھر ہی میں رکھتا تھا اور بعد میں گاڑی خریدی۔‘
وفاقی حکومت نے رواں سال قومی اسمبلی سے پاس کیے گئے فنانشل بل میں یہ تجویز بھی شامل کی ہے کہ نان فائلر کی موبائل سم بلا ک کی جائے یا ان پر مختلف اشیا کے خریدنے پر ودہولڈنگ ٹیکس (وہ ٹیکس جو حکومت مختلف مد میں نان فائلر شہریوں سے کاٹتی ہے) میں اضافہ کیا جائے۔
ناصر خٹک پشاور میں ایک نجی ٹیکس فرم میں ملازمت کرتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا فائلنگ کی تفصیل حکومت پاکستان کی طرف سے انکم ٹیکس آرڈیننس میں بھی دی گئی ہے جیسا کہ اگر کوئی شخص کسی کمپنی یا ادارے کو خدمات فراہم کرے ( اس میں زیادہ تر فری لانسز شامل ہیں) تو ان کی فیس میں فائلر سے 10 فیصد جبکہ نام فائلر سے 20 فیصد انکم ٹیکس کٹوتی ہوگی۔
اسی طرح گاڑی جس کے پاس موجود ہے تو فائلر کے لیے حکومت کی جانب سے اعلان کردہ سلیب کے مطابق ٹوکن اور انکم ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے جبکہ نان فائلر کے لیے حکومتی اعلان کردہ فیس سے 200 فیصد زیادہ ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔
’آسان الفاظ میں اس کا مطلب یوں ہوا کہ آج کل 1500سی سی گاڑیوں کی سالانہ ٹوکن اور انکم ٹیکس تقریبا آٹھ ہزار روپے ہے، تو اگر کوئی فائلر ہے تو ان کو یہی آٹھ ہزار ادا کرنے ہوں گے تاہم اگر کوئی نان فائلر ہے تو ان کو تقریباً 19 ہزارروپے سالانہ ادا کرنے پڑتے ہیں۔‘
ناصر نے بتایا، ’گاڑی کے علاوہ جائداد خریدو فروخت کرنے پر ٹیکس پر بھی انکم ٹیکس حکومت وصول کرتی ہے۔ فائلر کے لیے رقم کا دو فیصد جبکہ جو فائلر نہیں ہے، ان کو پانچ فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ کسی فائلر شخص نے اگر پانچ لاکھ کا پلاٹ لیا ہے تو اس کو10ہزار روپے جبکہ نام فائلر 25 ہزار روپے ٹیکس ادا کریں گے۔‘
فائلر ٹیکس ایڈجسٹ بھی کر سکتے ہیں
ناصر کے مطابق انکم آرڈیننس کے مطابق جو لوگ فائلر ہیں وہ مختلف اشیا پر آمدنی سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے کے بعد اس کا ریفنڈ حاصل کر سکتے ہیں یا پھر ایڈجسٹ بھی کرسکتے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض چیزوں میں حکومت فائلر اور نان فائلر دونوں سے ایک ہی طرح کا ٹیکس کاٹتی ہے جیسے موبائل یا انٹرنیٹ کا بل۔
انہوں نے بتایا کہ ’ود ہولڈنگ ٹیکس کے نام سے ٹیلی فون، موبائل اور انٹرنیٹ کے بل میں حکومت ود ہولڈنگ ٹیکس کاٹتی ہے۔ اب اگر ایک شخص کی سالانہ آمدنی چھ لاکھ روپے سے کم ہے تو ان کو گوشوارے تو جمع کرنے ہوں گے لیکن ان پر کوئی انکم ٹیکس عائد نہیں ہوتا لیکن حکومت ان سے پھر بھی ود ہولڈنگ ٹیکس وصول کرتی ہے۔‘
اب یہی ود ہولڈنگ ٹیکس یہ شخص حکومت سے واپس وصول کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ پہلے وہ فائلر ہو یعنی وہ سالانہ ٹیکس گوشوارے جمع کرائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کی ود ہولڈ نگ ٹیکس یا ایڈوانس ٹیکس کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے قارعین کے لیے ایک مثال پیش کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر اسلم خان (فرضی نام) کی سالانہ آمدنی 12 لاکھ روپے یعنی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ روپے ہے۔ اب اسی آمدنی پر سالانہ 10 ہزار روپے ٹیکس حکومت کی طرف سے عائد ہے لیکن اسلم خان نے گاڑی خریدتے وقت رجسٹریشن کے پانچ ہزار روپے اسی سال میں ادا کیے ہیں۔
اب 10 ہزار ٹیکس میں یہی پانچ ہزار پہلے سے ان کی انکم ٹیکس میں شمار ہوں گے یعنی کہ صرف پانچ ہزار مزید ادا کرنے ہوں گے۔
اب باقی پانچ ہزار بھی وہ دیگر چیزوں میں ایڈجسٹ کرسکتے جیسا کہ اسلم سے موبائل بل پر سالانہ دو ہزار روپے ود ہولڈنگ ٹیکس (کوئی بھی صارف موبائل کمپنی کی ہیلپ لائن پر کال کر اپنا ٹیکس سرٹفیکیٹ وصول کر سکتا ہے) کاٹے گئے ہیں اور اسی طرح انٹرنیٹ کمپنیاں بھی ود ہولڈنگ ٹیکس کاٹتی ہیں، تو اگر انٹرنیٹ کمپنی نے اسلم سے تین ہزار سالانہ کاٹا ہے تو وہ بھی اسلم اپنے ٹیکس میں ایڈجسٹ کر سکتے ہیں۔
ناصر کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو 10 ہزار ٹیکس سالانہ ادا کرنا ہے، لیکن انہوں نے ود ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں 15ہزار ادا کیے ہیں، تو وہ شخص یہی رقم حکومت سے واپس بھی لے سکتا ہے۔
ٹیکس گوشوارے صرف ان لوگوں کے لیے نہیں ہیں جو ٹیکس نیٹ میں آتے ہے بلکہ وہ لوگ بھی جمع کر سکتے ہیں جن کی آمدنی اتنی کم ہے کہ ان پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے رواں سال اعلان کردہ ٹیکس سلیب کے مطابق چھ لاکھ سالانہ کی کم آمدنی والے شہریوں پر کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔
ناصر نے بتایا: ’ودہولڈنگ ٹیکس واپس وصول کرنے کے لیے آن لائن فارم بھی جمع کرایا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی صرف فائلر ہی کر سکتے ہےاور ایف بی آر کے دفتر میں جا کر بھی درخواست دی جا سکتی ہے۔‘
اس کے علاوہ بھی فائلر بننے کے کچھ فوائد ہیں۔ اس بارے میں ناصر نے بتایا کہ پرائز بانڈ پر نان فائلر ڈبل ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ فائلر کے لیے وہی ریٹ ہے، جو حکومت کی طرف سے اعلان کردہ ہے۔
اس کی مثال یہ ہے کہ کسی ٹی وی شو میں آپ کو کوئی پرائز مل گیا، تو اسی شخص کو اس پرائز پر حکومت کو 15فیصد انکم ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔
کیا فائلر ہونے کا کوئی نقصان ہے؟
اس سوال کے جواب میں ناصر نے بتایا کہ بظاہر ان کو ہم نقصان تو نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ ایک قومی فریضہ ہے کہ ہر شہری کو ٹیکس گوشوارے جمع کرانا لازمی ہے تاہم لوگ اس سے ڈرتے ہیں کہ ان کے اثاثے ظاہر ہوجائیں گے۔
تاہم ناصر کے مطابق یہ ان لوگوں کے لیے ڈرنے کی وجہ ہوسکتی ہے جنہوں نے کسی غیر قانونی طریقے سے پیسے اکھٹے کیے ہیں۔ تاہم اگر کوئی شخص تنخوا دار ہے اور ان کا ادارہ اس سے ماہانہ انکم ٹیکس بھی کاٹتا ہے، تو ان کو فائلر بننے میں کوئی خوف محسوس نہیں کرنا چاہیے۔
لوگ فائلر کیوں نہیں بنتے اس حوالے سے ناصر نے بتایا کہ ایک تو یہی اثاثوں کا خوف ہے لیکن دوسری وجہ انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کا پیچیدہ نظام ہے جس کی وجہ سے عام لوگ گوشوارے جمع کرانے سے کتراتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کسی ماہر کی مدد سے آج کل ٹیکس گواشورے جمع کرانا ممکن نہیں ہے تاہم ایف بی آر اس نظام کو عام لوگوں کے لیے آسان بنا سکتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ فائلر بن سکیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے یہی سوال ایف بی آر کے ترجمان اسد طاہر کو بھیجا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔