لاہور آٹو شو: ’گاڑی خریدنے کی سکت نہیں تو دیکھنے چلے آئے‘

لاہور میں منعقدہ تین روزہ آٹو شو میں عوام کو ایم جی، ٹویوٹا، سوزوکی اور ہونڈا کی جدید کاروں میں بیٹھنے اور ان میں سیلفیز لینے کا بھرپور موقع ملا۔

پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو موٹیو پارٹس اینڈ اسیسریز مینوفیکچررز (پاپام) کا لاہور میں جاری تین روزہ ’پاکستان آٹو شو 2022 ‘ اتوار کو ختم ہو گیا۔

شو میں جہاں مقامی اور بین الاقوامی آٹو مینوفیکچررز اور متعلقہ اداروں پر مشتمل 153 سے زائد نمائش کنندگان شامل ہوئے، وہیں بہت سی نئی ٹیکنالوجیز اور گاڑیوں کے آئندہ آنے والے ماڈلز بھی رکھے گئے۔

پاپام پورے پاکستان میں تین ہزار سے زیادہ بڑی، درمیانی اور چھوٹی صنعتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس سال کے شو کی تھیم ’میڈ ان پاکستان‘ تھی، جس میں آٹو انڈسٹری کی معروف کمپنیوں نے 150 آٹو پارٹس مینوفیکچررز سمیت اپنے جدید ترین پرزوں اور ٹیکنالوجیز کی نمائش کی۔

نمائش دیکھنے کے لیے آنے والوں کو ایم جی، ٹویوٹا، سوزوکی اور ہونڈا کی جدید کاروں میں بیٹھنے، ان میں سیلفیز لینے اور ان سے مکمل طور پر لطف اندوز ہونے کی اجازت تھی۔

پاک ویلز کے سٹال پر آٹھ کروڑ روپے کی ایک سیکنڈ ہینڈ لیمبورگینی، ہمر اور دیگر بین الاقوامی گاڑیاں موجود تھیں۔

کچھ حاضرین کا کہنا تھا کہ ملک کے معاشی حالات ایسے ہیں کہ گاڑی خریدنے کی سکت نہیں رہی اس لیے انہیں یہاں دیکھنے چلے آئے۔

شو میں لاہور کی ایک کمپنی یس الیکٹروموٹیو نے ایک الیکٹرک تھری ویلر آٹو کو متعارف کروایا۔ کمپنی کی افسر حرا رفیق نے، جو انڈسٹریل ڈیزائنر بھی ہیں، انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے یہ تھری ویلر آٹو رکشہ اور چنگچی کی مارکیٹ کو ٹارگٹ کرنے کے لیے متعارف کروایا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس کے مختلف ویرنٹس مارکیٹ میں لائے جائیں گے، جن میں ایک آٹو رکشے کی صورت استعمال ہو سکتا ہے مگر اس کے علاوہ مال برداری، ادویات لانے لے جانے اور دیگر مقاصد کے لیے بھی مختلف ویرنٹس بنائے جائیں گے۔‘

حرا نے اس تھری ویلر کی قیمت تو نہیں بتائی البتہ ان کا کہنا تھا کہ اسے ایک رکشہ چلانے والا بھی باآسانی خرید سکے گا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تھری ویلز اس سال کے آخر میں مارکیٹ میں لانچ کر دیا جائے گا۔

فور ویلرز کی بات کریں تو نمائش میں ایم جی موٹرز نے اپنا آئندہ لانچ ہونے والا ماڈل ایم جی- جی ٹی پیش کیا۔

نمائش پر موجود چیئرمین پاکستان انڈسٹریل اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن فرنٹ فہیم الرحمان سہگل نے کہا: 'گاڑیوں کی بہت سی چیزیں ہم امپورٹ کر کے اسمبل کر رہے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ ہم مقامی صنعت کو سہولیات دیں تاکہ وہ چیزیں یہیں پر بنائیں۔

’جب تک چیزیں اپنے ملک میں نہیں بنیں گی، ہماری کاروباری لاگت کم نہیں ہوگی اور گاڑیاں عام صارف کی پہنچ سے دور رہیں گی۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی