یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
پانچ اگست دہری اذیت اور آزمائش کا دن تھا۔ ایک طرف سوا کروڑ سے زائد آبادی کے جنت نظیر ریاست کشمیر پر مودی کے مسلط کردہ 2019 کے انسانی حقوق، بھارتی آئین، بین الاقوامی اور اقوام متحدہ کی مسلمہ قراردادوں کی صریح خلاف ورزی کو تیسرا سال ہوا تھا اور دوسری طرف اسی روز اسرائیل نے فلسطینی عوام اور ان کے جذبہ مزاحمت و حریت کو کچلنے کے لیے غزہ پر ایک بار پھر حملہ کر دیا تھا۔
اس ناطے یہ اذیت اور آزمائش کا دن تھا۔ فلسطینیوں کے لیے اس لیے آزمائش کا دن تھا کہ ان پر اسرائیلی آتش و آہن کی بارش کے باوجود ان کا جذبہ حریت کیونکر سلامت رہتا ہے اور صیہونی فسطائیت کی اس جنگی کارروائی کا کس طرح مقابلہ بھی کرتے ہیں۔ نیز استقامت کے کوہ گراں بھی ثابت ہوتے ہیں۔ فلسطینی اس آزمائش میں پہلے بھی کامیاب ہوتے رہے ہیں اور اب بھی اللہ نے ان کے جذبہ آزادی کی لاج رکھ لی۔
دوسری آزمائش فلسطینیوں کے دنیا بھر میں پھیلے قومی و ملی برادارن کی تھی کہ وہ اس مشکل اور آزمائش کی گھڑی میں کھڑے ہوتے ہیں تو کس کے ساتھ اور کس کی طرف سے کھڑے ہوتے ہیں، یا فلسطینیوں کو چاہِ یوسف میں پھینک کر خود خوشحالی و ترقی کی تلاش میں اپنی شناخت سے بھی دور نکل جاتے ہیں۔
تیسری آزمائش بین الاقوامی سطح پرانسانی آزادیوں، حقوق اور بین اقوامی قرارادادوں، بین الاقوامی معاہدات، اقوام متحدہ کی طے شدہ پالیسیوں اور بلندو بالا عالمی اداروں اور ایوانوں کے دعووں اور وعدوں کی بھی آزمائش تھی۔ آزمایا یہ جانا تھا کہ عالمی ادارے اسرائیل کی اس انسان کشی اور فلسطین دشمنی کو اس بار بھی نظر انداز کر جاتے ہیں یا وہ اپنے ضمیر کی آواز پر جاگتے ہیں۔
جیسا شروع میں لکھا ہے فلسطینی عوام تو سرخرو ہوئے کہ وہ ڈٹے رہے، کھڑے رہے۔ لیکن دیگر جس جس کی بھی آزمائش ہوئی اس کا فیصلہ تاریخ کے حوالے کرتے ہیں کہ تاریخ انہیں سرخرو قرار دیتی ہے یا سیاہ رو ثابت کرتی ہے۔
اسرائیل کی طرف سے غزہ پر مسلط کردہ تین روزہ جنگی جارحیت بظاہر جمعے سے شروع ہو کر اتوار کی شب ساڑھے آٹھ بجے ختم ہو چکی ہے مگر مصر کی مدد سے ہونے والی اس جنگ بندی کے فوری بعد اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ پر زیادہ وسیع اہداف کو سامنے رکھ کر پھر حملہ کرے گی۔
گویا فلسطینیوں کو موت اور خون کے اس دریا کے پار کرنے کے بعد ایک اور دریا کا سامنا ایک بار پھر کرنا ہوگا۔ سہ روزہ اسرائیلی جنگی جارحیت کے دوران چھ کم سن فلسطینی بچوں، بچیوں اور کئی خواتین سمیت مجموعی طور پر 46 فلسطینیوں کو قتل کرنے کے علاوہ 1500 گھروں کو جزوی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ ڈیڑھ درجن کے قریب گھر مکمل تباہ اور 71 کو ایسا نقصان پہنچا کہ اب رہائش کے بالکل قابل نہیں رہے۔ تقریباً دو درجن دیگر کئی منزلہ عمارات بھی تباہ ہوئی ہیں۔
بجلی پانی کا نظام متاثر اور ادویات کی فراہمی معطل ہونے سے ہسپتالوں میں علاج معالجہ جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔ گویا زخمی فلسطینیوں کے زخموں پر جس طرح سفارتی اور انسانی حوالے سے مرہم رکھنے کی کوشش کرنے کے لیے میدان میں کوئی موجود نہ تھا، اسی طرح ہسپتال کے معالجین بھی نظام کے تعطل کی وجہ سے اس پوزیشن میں نہ رہے تھے۔ یہ سب تو غزہ اور اہل فلسطین کے لیے ایک معمول کے درجے میں پہنچ چکا ہے۔ ان کے اغوا، گرفتاریاں، شہادتیں اور گھروں کی مسماری معروف معنوں میں خبر نہیں بلکہ معمول ہے۔
تاہم اس بار اسرائیل نے برطانیہ کی مدد سے تیار کردہ ڈرون طیاروں کا استعمال فلسطینیوں کے گھروں کو نشانہ بنانے کے لیے نسبتاً اہتمام سے کیا۔ وہی ڈرون جن کے پرزوں کی فیکٹری پر برطانیہ میں فلسطینی احتجاج کر چکے ہیں کہ یہ پرزے اسرائیل کو ملنے سے فلسطینیوں کی ناحق جانیں لینے کا باعث بنتے ہیں۔ بہرحال احتجاج اپنی جگہ اور صہیونی راج اپنی جگہ۔ جب صدر جو بائیڈن خود کو ’صہیونی‘ کہہ کر اسرائیل میں اپنا تعارف کرا رہے ہوں تو پھر اسرائیل کو فلسطینیوں کی جانوں سے کھیلنے کے لیے ڈرون اسی صیہونی سوچ کے تحت دیے جانے میں کوئی کیونکر حائل ہو سکے گا۔
غزہ میں اس بار اسرائیل نے اپنے حملے کا بطور خاص ہدف اسلامی جہاد کے نام سے سرگرم گروپ کو بنایا۔ اس کی وجہ کیا بنی؟ ظاہر ہے کہ یہ گہری سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے پچھلے ماہ جولائی میں مشرق وسطی کے دورے پر آنے سے تقریباً تین چار ہفتے پہلے ڈیموکریٹس اور رپبلکن ارکان کانگریس نے ایک مشترکہ بل کانگریس میں پیش کیا۔ اس بل میں اسرائیل اور مشرق وسطی کے عرب ممالک کو فضائی دفاع کو اجتماعی چھتری کے نیچے لانے کی تجویز تھی۔ اجتماعی دفاعی چھتری کے دو مقاصد بیان کیے گئے۔ ایک یہ کہ اسرائیل اور عرب دنیا کو ایران کے حملوں سے بچانا خصوصاً ڈرون حملوں اور میزائل حملوں سے۔ دوم یہ کہ خطے میں موجود امریکی فوجی اہلکاروں کو واپس اپنے گھروں کو جانے میں مدد دینا کہ ان کی قیمتی جانوں کو خطرناک ماحول سے نکال لیا جائے کہ امریکی کی جان بہرحال ’قیمتی‘ اور ’مقدم‘ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعد ازاں امریکی صدر جو بائیڈن مشرق وسطی کے دورے پر آئے تو بھی ان کے دورے کا اصل ’سیلنگ پوائنٹ‘ ایران اور ایران کی وجہ سے خطے کے ممالک کو درپیش خطرات تھے۔ ایرانی خطرے کی ایسی تکرار تھی کہ صاف لگتا تھا کہ یہ ترکیب کارگر رہے گی اور جو بائیڈن کامیاب دورے کے بعد واپس جائیں گے۔ ان کی کامیابی میں اسرائیل کے حوالے سے ابراہم معاہدے کے تحت ’نارملائزیشن‘ کا عمل آگے بڑھانا اور خود امریکہ کے لیے توانائی یا مالیاتی اعتبار سے وسائل اور امکانات کو ممکن بنانا تھا کہ ماہ نومبر میں ہونے والے امریکی مڈٹرم انتخابات میں ڈیموکریٹس کی جیت کا امکان پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری تھا۔
بصورت دیگر 37 فیصد تک گر جانے والے مقبولیت کے گراف کے بعد جو بائیڈن اپنی جماعت کے لیے اتنے ہی ’خطرے ناک‘ ہو چکے ہیں جتنا کہ ایران مشرق وسطی میں دوسرے ممالک کے لیے ہو سکتا ہے۔
صدر جو بائیڈن کے دورے سے پہلے اور اس دورے کے دوران جو فضا بنائی گئی تھی اس میں یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ خطے میں جنگی ماحول اب زیادہ دور نہیں ہے کہ اسی صورت امریکی اسلحے کی کھپت کے امکانات بڑھیں گے اور امریکی مالیاتی مسائل میں کمی کی راہ ہموار ہو سکے گی۔
لیکن واقعہ یہ ہے کہ مبصرین اس اسرائیلی جارحیت سے مقابلتاً زیادہ پھیلی ہوئی جنگ کا ماحول دیکھ رہے تھے۔ اسرائیل نے غزہ میں اسلامی جہاد کو بطور خاص نشانہ بنا کر بقول اسرائیل کے ’ایرانی پراکسی‘ کو نشانہ بنایا ہے۔ 1981 میں قائم ہوئے اسلامی جہاد گروپ کو فلسطین میں ایران کے زیادہ قریب مانا جاتا ہے۔ یہ گروپ اگرچہ حماس کے مقابلے میں ایک چھوٹا مزاحمتی گروپ ہے مگر تصور یہ ہے کہ اسلحے کے اعتبار سے یہ کافی مضبوط گروپ ہے۔
البتہ حماس کی راکٹ ٹیکنالوجی زیادہ دور تک مار کرنے والی ہے۔ اسرائیل نے اس ایرانی حمایت یافتہ گروپ کے سیاسی شعبے کے رہنما سعد السعدی کو چند دن قبل مقبوضہ مغربی کنارے سے گرفتار کیا تھا۔ بدقسمتی سے اس گرفتاری میں فلسطینی اتھارٹی اور اس کے سربراہ محمود عباس کی سہولت کاری کا بھی دخل تھا۔ یہ سہولت کاری انہوں نے جو بائیڈن کے اسرائیل آنے سے پہلے اسرائیلی وزیر دفاع کے ساتھ اسی ملاقات میں طے کر دی تھی کہ نہ صرف جو بائیڈن کے دورے کے موقعے پر امن کو بحال رکھا جائے گا بلکہ سکیورٹی کے سلسلے میں دو طرفہ تعاون بھی برقرار رکھا جائے گا۔ اسی دو طرفہ تعاون کی تجدید نے اسرائیل کو اسلامی جہاد کے سیاسی شعبے کے اہم رہنما سعد السعدی کی گرفتاری کا موقع دیا تھا۔
اسرائیل نے ایک جانب یہ اہم گرفتاری کر لی اور دوسری طرف خود ہی غزہ پر چڑھائی کر دی کہ اس گرفتاری کے بعد اسے خطرہ تھا کہ اسلامی جہاد گروپ اسرائیل پر حملہ کردے گا۔ اس بارے میں اسرائیل نے ایک چال یہ چلی کہ اس حملے میں اگرچہ عام فلسطینی شہید، زخمی اور بےگھر ہوئے۔ اسرائیل نے اسے صرف ’اسلامی جہاد‘ کے خلاف حملہ قرار دے دیا کہ یہ ایرانی حمایت یافتہ گروپ ہے۔
اسرائیل کی یہ کوشش کامیاب رہنے کا امکان نسبتاً زیادہ تھا کہ ایران کے بارے میں اس طرح کی بات مشرق وسطیٰ میں آسانی سے چلائی جا سکتی تھی۔ جیسا کہ جو بائیڈن نے بھی ایران کو ہی اپنا ’سیلنگ پوائنٹ‘ بنایا۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایران کی طرف سے سب اچھا قرار دیا جا رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ خطے کی ترقی و استحکام کے لیے ان مسلم ممالک کے درمیان تعلق کو سیاسی بہتری کے بجائے ان میں تصادم اور ٹکراؤ کو بڑھاوا دے کر امریکہ نے اسرائیل کے لیے گنجائش اور سہولت پیدا کرنے کا موقع بنا لیا ہے۔
اسرائیل کی ناجائز ریاست کو اس وقت نسبتاً زیادہ قبولیت کے قابل بنا کر پیش کرنے کی کوشش جاری ہے۔ اس کے مقابلے میں عرب دنیا اور ایران کے درمیان خلیج کو پاٹنے کے بجائے انہیں مزید گہرا کیا جا رہا ہے۔
یقیناً اس صورت حال میں خطے میں حقیقی امن و استحکام کا امکان بڑھانے کے بجائے کم کیا جا رہا ہے۔ یہ لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی مشرق وسطی کے وسائل پر نظر رکھنے اور اپنے لیے ایک اچھا افورڈ کرنے والی کروڑوں کی آبادی کو مارکیٹ کے طور پر استعمال کرنا حکمت عملی کے لیے بلاشبہ مفید ہو سکتا ہے۔
اسی کو اسرائیل نے بروئے کار لاتے ہوئے ایرانی پروکسی پر حملے کا نام دیا۔ ابھی زیادہ بڑے حملے کی دھمکی اسرائیلی فوج نے اتوار کی رات ہونے والی جنگ بندی کے فوری بعد دے دی ہے۔
گویا غزہ کو کبھی ایک بہانے سے اور کبھی دوسرے بہانے سے تباہ و برباد کیا جاتا رہے گا اور یہ ان حالات میں کیا جاتا رہے گا کہ جب ایک طرف خطے میں اسرائیل کے لیے ’نارملائزیشن‘ کی مہم جاری ہے اور دوسری طرف فلسطینیوں کے خلاف جنگی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے۔