بائیڈن کی فلسطینی صدر کو سفارتی سرزنش

جو بائیڈن کے اسرائیل کے حالیہ دورے کے دوران فلسطینیوں کے لیے اس بےاعتنائی پر مبنی رویے سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے پیش نظر صرف اسرائیلی ریاست اور یہودی مفادات ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن دورہ مشرق وسطیٰ کے دوران 15 جولائی 2022 کو فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ مقبوضہ مغربی کنارے میں پریس کانفرنس میں (اے ایف پی)

یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں۔

 

ماضی کے تمام امریکی صدور مشرق وسطیٰ کا دورہ کسی نہ کسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کرتے چلے آئے ہیں۔

جو بائیڈن کو تاریخ میں پہلے ایسے امریکی صدر بننے کا اعزاز حاصل ہوا رہا ہے کہ جنہوں نے اپنا حالیہ دورہ مشرق وسطیٰ اسرائیل-فلسطین سے متعلق کسی واضح ’ڈپلومیٹک اقدام‘ کے بغیر مکمل کیا۔

تذکیر کے طور پر اس بات کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جارج ڈبلیو بش نے میڈرڈ امن مذاکرات کا ڈول ڈالنے کے لیے مشرق وسطیٰ کا قصد کیا، کلنٹن کو اوسلو معاہدہ اور کیمپ ڈیوڈ طے کرانے کے لیے مقبوضہ فلسطین کے سفر کی مشقت اٹھانا پڑی۔

جارج ڈبلیو بش جونیئر بھی قضیہ فلسطین کے حل سے متعلق اپنا مخصوص ’نقشہ راہ‘ لے کر اسرائیل آئے۔ ڈیموکریٹ صدر براک اوباما نے مشرق وسطیٰ مشن اپنے وزیر خارجہ جان کیری کے سپرد کر رکھا تھا اور وہ بھی ہمیشہ بھاری بھرکم ایجنڈے کے ساتھ خطے کے سفارتی دورے کرتے رہے ہیں۔

یادش بخیر! ماضی میں امریکی حکام کے دوروں سے پہلے اسرائیل انتہائی چالاکی سے ’سب اچھا‘ دکھانے کے لیے اپنی جارحانہ پالیسیوں کو موقوف کر کے خود کو دنیا کی نظروں میں ’اچھا بچہ‘ ثابت کیا کرتا تھا۔ لیکن امریکی قیادت کے اسرائیل سے اڑان بھرتے ہی وہ اپنی اصلیت دکھانا شروع کر دیتا۔

جو بائیڈن کو اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے دور کا اپنا وہ سفر یاد ہو گا جب وہ امریکی نائب صدر کے طور پر اسرائیلی سرزمین پر اترے تو عین ان کے دورے کے دوران ہی مسٹر یاہو نے مقبوضہ غرب اردن کے علاقے میں ایک وسیع یہودی بستی کے قیام کا اعلان کیا، جس کے وجہ سے واشنگٹن-اسرائیل تعلقات بگاڑ کا شکار ہو گئے۔

ایک طے شدہ بندوبست کے مطابق اسرائیلی اقتدار کے سنگھاسن پر آج کل یائیر لیپد بطور متبادل وزیر اعظم براجمان ہیں۔ انہوں نے مہمان امریکی صدر جو بائیڈن کو ان کے دورے کے دوران یہودی آبادکاری کے منصوبے کا اعلان نہ کر کے اگرچہ شرمندگی سے بچانے کا اہتمام ضرور کیا، تاہم ان کی حکومت نے یہودیوں کی آبادکاری کے منصوبوں پر روک نہیں لگائی۔

تادم تحریر بیت المقدس اور جنوبی غرب اردن کے مقبوضہ علاقوں سے فلسطینیوں کا انخلا جاری ہے تاکہ وہاں بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیرے ہوئے یہودی آبادکاروں کے لیے نئے مکانات تعمیر کرائے جا سکیں۔

تاریخ میں پہلی مرتبہ یائیر لیپڈ کی اسرائیلی حکومت سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے دور میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے لیے مقرر کردہ ’سرخ لکیر‘ عبور کرنے جا رہی ہے۔ ’ای۔ون‘ نامی یہودی آباد کار منصوبہ غرب اردن کو ایسے ہڑپ کر لے گا کہ اس کا رابطہ بیت المقدس سے مکمل طور پر کٹ جائے۔

فلسطینی صدر کے تہینتی سپاس نامے میں پیش کردہ مطالبات میں سے کسی ایک مطالبے کے حوالے سے صدر جو بائیڈن نے اپنے دورے میں ایسا تاثر نہیں دیا جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ امریکی صدر کے دورے کا ایک مقصد فلسطین کاز کے لیے یا فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے کسی سنجیدہ کاوش کا حصہ تھا۔ کسی ایک مطالبے کا مثبت جواب نہیں ہے دیا گیا۔ بلکہ الٹا فلسطینی صدر کو جس انداز سے ڈیل کیا گیا یہ محمود عباس اور فلسطینیوں کے لیے بھی اچھا پیغام نہیں۔

محمود عباس تنظیم آزادی فلسطین کے چیئرمین ہیں۔ اس تنظیم کو کانگریس کے دباؤ کے تحت امریکی حکومت نے 1987 سے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ اس اقدام کے باوجود محمود عباس اور ان کے پیش رو مرحوم یاسر عرفات متعدد بار امریکی وائٹ ہاؤس سمیت اقوام متحدہ جیسے عالمی فورم سے خطاب کا ’اعزاز‘ حاصل کر چکے ہیں۔

صدر جو بائیڈن جنہوں نے اسرائیل کے بانی وزیر اعظم بن گورین کے نام سے موسوم تل ابیب کے ائیر پورٹ پر اترتے ہی خود کو صیہونی کے طور پر متعارف کر کے اسرائیل کو اپنی محبت اور وفا شعاری کا یقین دلا دیا تھا۔ اس کے برعکس محمود عباس کو رام اللہ میں اتھارٹی کے ہیڈکوارٹرز میں بھی ملنا گوارا نہ کیا۔ بلکہ محمود عباس اور ان کے ساتھیوں کو بیت لحم بلایا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صرف یہی نہیں کہ فلسطینیوں کے ہیڈ کوارٹرز کو سند تسلیم دینے سے اس طرح شعوری گریز برتا گیا۔ دلچسپ بات ہے جب صدر محمود عباس انہیں فلسطینیوں کے پیارے مہمان کے نام سے مخاطب کر رہے تھے خود محمود عباس بھی اسرائیلی مقبوضہ علاقے میں تھے اپنی رہائش گاہ، دفتر یا فلسطینی اتھارٹی کے زیر کنٹرول علاقے میں بھی نہ تھے۔ جو بائیڈن نے ان کے ساتھ ساتھ ون آن ون ملاقات کرنے کی بجائے وفود کے ساتھ دو طرفہ ملاقات ہی کافی سمجھی۔

بعد ازاں مشترکہ پریس کانفرنس کے نام پر دونوں ’صدور‘ نے اپنا پنا موقف بیان کر دیا۔ کوئی باہمی اتفاق ہوا، نہ مطالبات کے لیے کسی فوری میکانزم کی بات ہوئی، نہ یہ بتایا گیا معاہدہ ابراہم کے نتیجے میں اسرائیل کے ساتھ آپ فلسطینیوں کے لیے بھی یہ ثمرات شامل ہوں گے۔

صدر جو بائیڈن کا انداز مطالبات کے دوران بےنیازی لیے ہوئے بھی اور فلسطینی اتھارٹی کے طویل عرصہ پہلے اپنی صدارتی مدت پوری کر چکے محمود عباس کے لیے قدرے دھمکی آمیز بھی تھا۔

سب جانتے ہیں کہ محمود عباس کو عرصہ پہلے صدارتی مدت کے ختم ہو جانے کے بھی فلسطینی اتھارٹی کو بے اثر رکھنے اور فلسطینیوں کی حقیقی ترجمانی کو نہ ہونے دینے کے لیے اب تک اس صدارت پر سنبھال کر رکھا ہے اور اس کی پرواہ نہیں کہ اس معاملے کی جمہوری اور قانونی قیمت کیا ہے۔ ایک طرف سرپرستی جاری رکھی اور اب جاتے جاتے معاملات کی شفافیت کا بھی کہہ گئے۔

جو بائیڈن کی فلسطینیوں کے بارے میں پالیسی کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف ’کولڈ بلڈڈ‘ کارروائیوں کی یاد ذہن میں گھوم گھوم جاتی ہے۔ صدر جو بائیڈن نے صرف اپنی شہری اور صحافی ابو عاقلہ کے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں قتل پر ابھی تک انسانی بنیادوں ہر ہی کوئی اب تک ایکشن لیا ہے بلکہ ابو عاقلہ کے قتل کے بارے میں یہ مجبوراً تسلیم کرتے ہوئے کہ اسرائیلی فوج نے قتل کیا لیکن ساتھ ہی کہہ دیا کہ اس بارے میں اسرائیل فوج کی نیت تو یہ نہ ہو گی۔

یہ بھی اپنی جگہ ابو عاقلہ کے اہل خانہ کے مطالبے کے باوجود ان کے قریب تر آ کے بھی ملاقات سے انکار کر دیا۔ ایک فرد کے حقوق کا معاملہ ایک طرف جو بائیڈن فلسطینیوں کو بھی یہ پیغام پوری سنگدلی کے ساتھ دے گئے کہ ان کی فلسطینیوں کی آزادی اور دو ریاستی حل میں دلچسپی محض ایک بیان کردہ موقف کی حد تک ہے اس سے زیادہ ہر گز نہیں۔

انہوں نے محمود عباس سے کہا کہ دو ریاستی حل چاہے کتنا بھی دور ہو وہ اس کےحق میں ہیں۔ اسی طرح انہوں نے فلسطین-اسرائیل مذاکرات کے بھی دوبارہ شروع ہونے کا کوئی امکان ظاہر نہیں کیا۔ ان کے ایک اہلکار نے مشرقی بیت المقدس میں امریکی قونصل خانہ کھولنے کی بات کو بات چیت کی حد تک مانا مگر پیش رفت کی کوئی اطلاع نہیں دی۔

جو بائیڈن کے فلسطینیوں کے لیے اس بےاعتنائی پر مبنی رویے سے بھی واضح ہوا کہ ان کے پیش نظر صرف اسرائیلی ریاست اور یہودی مفادات ہیں۔ اسرائیل کو یہ مفادات دلانے کے بدلے وہ نومبر کے مڈ ٹرم الیکشن میں کیا حاصل کر پاتے ہیں اور کیا نہیں، اس کے لیے صرف تین ماہ کے لیے نومبر تک انتظار کرنا ہو گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ