لبنان کے دارالحکومت بیروت میں اسلحے کے زور بظاہر بینک لوٹنے کا ایک انوکھا واقعہ پیش آیا جس میں رقم کا مطالبہ کرنے والا ڈاکو نہیں بلکہ بینک کا گاہک تھا جو اپنی ہی رقم نکلوانا چاہتا تھا۔
بیروت کے ایک نجی بینک کے مسلح گاہک نے عملے کو یرغمال بنا لیا اور دو لاکھ ڈالرز پر مشتمل اپنی جمع پونجی واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے لبنان کے سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ بندوق سے لیس اور خود کو آگ لگانے کی دھمکی دینے والے ایک گاہک نے جمعرات کو بینک کے عملے کو یرغمال بنا لیا تھا۔
مقامی بینکوں اور ان کے گاہکوں کے درمیان اپنی جمع پونجی واپس لینے کے حوالے سے تنازع کا یہ تازہ ترین واقعہ ہے۔
لبنان کی معاشی بدحالی کے باعث بینکوں میں اکاؤنٹ رکھنے والے گاہک اپنی جمع پونجی نہیں نکال پا رہے۔
اے ایف پی کے ایک نامہ نگار نے مغربی بیروت میں مصروف ہمرا کمرشل سٹریٹ کے قریب فیڈرل بینک کی برانچ کے ارد گرد سکیورٹی فورسز کو دیکھا۔
ایک سکیورٹی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’وہ شکاری رائفل اور آتش گیر مواد لے کر داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا اور ملازمین کو دھمکی دی کہ وہ اسے اس کی جمع پونجی دیں۔‘
جائے وقوعہ پر موجود ایک اور سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ 40 سال کی عمر کے ایک شخص نے ’پورے بینک میں گیسولین ڈال دی اور ملازمین کو یرغمال بنا کر بینک کا داخلی دروازہ بند کر دیا۔‘
ذرائع نے بتایا: ’انہوں نے اپنی جمع پونجی کے دو لاکھ ڈالر سے زائد کا مطالبہ کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لبنان کے قومی خبر رساں ادارے (این این اے) کے مطابق: ’اس شخص نے بینک مینیجر کے چہرے کی طرف بندوق تانتے ہوئے خود کو آگ لگانے اور برانچ میں موجود ہر شخص کو قتل کرنے کی دھمکی دی۔‘
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں دیکھا گیا ہے کہ دو افراد بینک کے آہنی دروازے کے پیچھے مسلح شخص کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔
خبر رساں پلیٹ فارم السیاق کی جانب سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسلح شخص ایک ہاتھ میں رائفل اور دوسرے میں سگریٹ تھامے ہوئے غصے میں بات کر رہا ہے۔
ایک مذاکرات کار نے اسے کہا کہ بینک کے گاہکوں کو جانے دے لیکن اس نے کسی کو بھی باہر بھیجنے سے انکار کر دیا۔
لبنان 2019 سے ایک گہرے معاشی بحران میں گھرا ہوا ہے۔
اس وقت مقامی کرنسی کی قدر کم ہونا شروع ہوئی اور بینکوں نے غیر ملکی اور مقامی کرنسی نکلوانے پر سخت پابندیاں عائد کرنا شروع کر دیں۔
قرض دہندگان نے رقم کو بیرون ملک منتقل ہونے سے بھی روکا ہے۔
بینک کے کھاتے داروں اور اپنے مالکان کی پالیسیوں پر عمل کرنے والے بینک عملے کے درمیان تصادم عام بات ہے۔
بحران کے آغاز کے بعد سے مقامی کرنسی کی قیمت 90 فیصد کم ہوچکی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق تقریبا 80 فیصد لبنانی غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی عطیہ دہندگان کا کہنا ہے کہ امداد اصلاحات سے مشروط ہے جس کی سیاست دانوں نے اب تک مزاحمت کی ہے۔