لبنان حکومت کی جانب سے ملک میں جاری مسلسل مالیاتی بحران کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ یہ نقصان 68 ارب سے 69 ارب ڈالر کے درمیان ہو سکتا ہے۔
منگل کے روز لبنان کے نائب وزیر اعظم سعدی الشامی نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو ان اعداد و شمار کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اعداد و شمار درست ہیں تاہم ان میں کچھ چیزیں اندازاً بیان ہوئی ہیں ان کے بدلنے سے معمولی کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے اس حوالے سے مزید تفصیل بتانے سے انکار کردیا۔
مالیاتی خسارے کے اعداد و شمار پر اتفاق کو لبنان کی حکومت کی جانب سے ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے بیروت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے سپورٹ پروگرام پر مذاکرات کر سکے گا۔
لبنان کے مرکزی بینک، کمرشل بینکوں اور حکومت کے درمیان نقصانات کے حجم پر اختلافات کی وجہ سے گذشتہ سال آئی ایم ایف پروگرام کے لیے بات چیت میں خلل پڑا تھا۔
لبنان کے موجودہ معاشی حالات کو 1975 سے 1990 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد بدترین مالی بحران طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
لبنان کے وزیر اعظم نجیب نے کہا ہے کہ وہ سال کے آخر تک آئی ایم ایف کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کرنے کے خواہاں ہیں۔
اس مالیاتی بحران کے دوران لبنان کی کرنسی مسلسل گر رہی ہے۔ اے ایف پی کے مطابق لبنان کی قومی کرنسی کو پیر کے دن 20 گنا تک گراوٹ کا سامنا کرنا پڑا جس سے ملک میں مہنگائی اور مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بلیک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں لبنانی پاؤنڈ 27 ہزار پر ٹریڈ کر رہا ہے۔ لبنانی کرنسی کی قدر اکتوبر 2019 کے بعد سے سب سے نچلی سطح کو چھو رہی ہے۔
لبنان کی اس معاشی تباہی کو 150 سالوں میں دنیا کا بدترین بحران قرار دیا گیا ہے۔ لبنان میں افراط زر اور بنیادی اشیا کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جو اپنی بنیادی ضرورت کی اشیا کا 80 فیصد سے زیادہ درآمد کرتا ہے۔
ایندھن اور ادویات سمیت بنیادی اشیا کی قلت اور بینکوں سے رقم نکلوانے اور منتقلی کرنے پر پابندیاں نے ملک کے متوسط طبقے اور عام لبنانیوں کی مایوسی کو بڑھا دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملک میں غربت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جبکہ سیاسی طبقہ جس پر برسوں کی بدعنوانی اور بدانتظامی کا الزام ہے، بحران کا حل پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔
معیشت کی بحالی کے منصوبے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ مذاکرات سیاسی اختلافات اور الزام تراشی کی وجہ سے مزید الجھ گئے ہیں۔
لبنان میں آزادی صحافت کے خلاف کریک ڈاؤن اور عام شہریوں پر مقدمہ چلانے کے لیے فوجی عدالتوں کے استعمال پر امریکہ کی جانب سے مایوسی کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔
العربیہ نیوز کے مطابق امریکہ نے اگلے سال ہونے والے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات سے قبل بیروت کی ایک فوجی عدالت کی جانب سے ایک مقامی صحافی کو ’فوج کی توہین‘ کے جرم میں تیرہ ماہ قید کی سزا سنائے جانے کے بعد سخت تنقید کی ہے۔
امریکی حکام نے شہریوں کے لیے فوجی عدالتوں کے استعمال کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومتوں کو عوام کے اظہار رائے کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے اس صورت میں بھی جب وہ ان کے خیالات سے متفق نہ ہوں۔‘