جو کام پاکستان میں نیب کر رہا ہے، بھارت میں اس کے لیے ای ڈی یعنی انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ نامی ادارہ موجود ہے۔
مشترکہ بات یہ ہے کہ دونوں اداروں پر الزام لگتے رہے ہیں کہ انہیں حکومتیں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کا استحصال کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
نیب 2002 میں جنرل مشرف کے دور میں وجود میں آیا تھا جب کہ بھارتی ادارے ای ڈی کا آغاز 1956 میں ہوا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سال 2002 تک ای ڈی کے پاس منی لانڈرنگ اور احتساب کرنے کے لیے کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔
2002 میں اٹل بہاری واجپائی کی سربراہی والی این ڈی اے حکومت نے نیشنل اینٹی منی لانڈرنگ ( پی ایم ایل اے) ایکٹ متعارف کروا کے ای ڈی کو احتساب کا کام بھی سونپ دیا تھا۔
اگر یوں کہا جائے کہ ای ڈی احتساب ونگ اور پاکستانی نیب ہم عمر ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔
من موہن سنگھ کی حکومت کے دوران 2004 سے 2014 تک ای ڈی کے شعبہ اینٹی منی لانڈرنگ کی طرف سے کل 112 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت والی سرکار میں صرف آٹھ سال کے اندر یعنی 2014 سے تا حال این ڈی اے کی جانب سے 3010 چھاپے مارے گئے اور ان میں زیادہ تر اپوزیشن رہنماؤں، میڈیا و سماجی کارکنوں کو ٹارگٹ کیا گیا۔ پی ایم ایل اے کا سزا دینے کا تناسب 0.5 فیصد ہے۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جو چھاپے یا کیسز بنائے جاتے ہیں ان کا مقصد دراصل اپوزیشن یا مختلف آرا رکھنے والوں کو ڈرا کے چپ کروانا ہوتا ہے۔
Answer to my parliamentary question regarding ED says it all:
— Priyanka Chaturvedi (@priyankac19) August 1, 2022
27 times increase in cases filed however look at the conviction rate: of 0.5%
This is a political witch-hunt targeting the opposition, not an attempt to bring transparency in financial dealing. pic.twitter.com/EHZLry2fmN
یہ اعداد و شمار پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں کانگریس کی رکن راجیہ سبھا پریانکا چترویدی کی طرف سے ای ڈی کے چھاپوں کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے فنانس پنکج چوہدری نے فراہم کیے۔
صرف سال 2021۔22 میں یہ تعداد 1180 ہے اور اس میں اپوزیشن جماعتوں انڈین نیشنل کانگریس، ترنمول کانگریس، شیو سینا، عام آدمی پارٹی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور نیشنل کانفرنس کے رہنما سر فہرست ہیں۔ چند روز قبل کانگریس کے صدر راہول گاندھی اور ان کی بہن پریانکا گاندھی کو بھی ای ڈی نے پوچھ گچھ کے لیے بلایا، جس پر گانگریس رہنماؤں کی طرف سے احتجاج بھی کیا گیا۔
ای ڈی کی غیر ضروری چھاپے مارنے کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لیے اپوزیشن رہنماؤں نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی جس پر فیصلہ سنا تے ہوئے عدالت نے فی الحال اس کی صوابدید کو جوں کا توں رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا۔
بھارت میں اپوزیشن سیاسی رہنماؤں، سماجی کارکنوں، لکھاریوں کا کہنا ہے کہ گورنمنٹ جان بوجھ کر اس ادارے کو مخالف آواز دبانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
اب ایک نظر دوڑاتے ہیں پاکستان کے قومی احتساب بیور( نیب) پر۔ کارگل کے بعد جب اس وقت کے سویلین وزیراعظم نواز شریف نے صدر مشرف کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی تو مشرف نے دو تہائی اکثریت والی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اقتدار سنبھال لیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صدر مشرف نے سنہ 2002 میں نیب کی بنیاد رکھی۔ بظاہر اس ادارے کا مقصد احتساب کرنا تھا لیکن الزام لگتے رہے کہ اسے سیاسی انجینیئرنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
موجودہ وزیرِاعظم شہباز شریف جب حزبِ اختلاف میں تھے تو بار بار ’نیب نیازی گٹھ جوڑ‘ کا ذکر کرتے رہتے تھے۔
خود سپریم کورٹ آف پاکستان خواجہ برادران کیس میں نیب کے کردار پر سوالات اٹھا چکی ہے۔
عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں نیب نے حزبِ اختلاف کے متعدد رہنماؤں کو پکڑا مگر اکثر کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہو سکا اور انہیں بعد ازاں عدالتوں سے ضمانتیں ملیں۔
نیب کو عالمی سطح پر بھی براڈ شیٹ نامی کمپنی سے سبکی اٹھانا پڑی جس سے اس کی ساکھ مزید کمزور ہوئی۔
وی ڈم کی ’جمہوری رپورٹ‘ برائے سال 2022 میں بھارت کا نمبر 91 ہے جبکہ پاکستان اس لسٹ میں جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے پیچھے ہے۔ اس کی عالمی رینکنگ 117 ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں نیپال، بھوٹان اور سری لنکا بھارت سے بھی آگے ہیں۔