کون سی مشین یا ایجاد ہے ایسی ہے جس نے دنیا کو سب سے کم وقت میں سب سے تیز رفتاری سے اور سب سے بھرپور طریقے سے بدلا؟ ٹیلی ویژن؟ ریڈیو؟ ہوائی جہاز، کمپیوٹر، موبائل فون؟ انٹرنیٹ؟ یہ سب اپنی جگہ اہم ہیں لیکن جہاں تک چند برسوں کے اندر اندر دنیا کی کایا پلٹنے والی بات ہے، تو یہ ساری ایجادیں ریلوے کے سامنے پانی بھرتی ہیں۔
ریلوے نظام جب آج سے 169 سال پہلے برصغیر میں آنا شروع ہوا تو یہ صرف آمد و رفت کا ذریعہ نہیں تھا، اس نے چند عشروں کے اندر انسانوں کے رہن سہن، کھانے پینے، اوڑھنے پہننے، نوکری یا کاروبار کے طریقوں حتیٰ کہ سوچنے کے انداز کو بھی بدل ڈالا۔
لیکن پاکستان میں یہ نظام آج پاکستان میں ٹوٹ پھوٹ اور زوال کی عبرت ناک داستان بن چکا ہے۔ آغاز اور کمال کی باتیں تھوڑی دیر بعد مگر پہلے حال کے اور زوال کا احوال سن لیجیے۔
سرکاری دعوے اپنی جگہ لیکن پاکستان میں ریلوے کے اصل حالات کا اندازہ زمین پر جا کر ہوتا ہے۔ آج پاکستان میں ریلوے پھیلنے کی بجائے سکڑ رہی ہے۔
انجینیئر عبدالعزیز کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق آزادی کے وقت ہماری ریلوے لائن کی کل لمبائی 8561 کلومیٹر سے زیادہ تھی، اب وہ گھٹ کے 7791 کلومیٹر سے کچھ زیادہ رہ گئی ہے، اور متعدد جگہوں پر لائنیں بند کر دی گئی ہیں۔
لنڈی کوتل کی زنگ آلود ریلوے لائن
اس کی سب سے ڈرامائی مثال لنڈی کوتل ہے۔ یہ ریلوے لائن انگریزوں نے 50 ہزار پاؤنڈ فی میل کے خرچ سے بنائی تھی، جو نہ صرف ہندوستان بلکہ شاید دنیا کی مہنگی ترین ریلوے لائن تھی، کیوں کہ اس وقت عام طور پر پانچ سے دس ہزار پاؤنڈ فی میل کے حساب سے ریل بچھ جاتی تھی۔
آج اس مہنگے ترین پراجیکٹ کا کیا حال ہے، لنڈی کوتل کے میٹ جمعدار خالد خان کہتے ہیں، ’یہاں آخری ٹرین 2007 میں آئی تھی۔2007 میں سیلاب آیا تھا جو پٹریاں ساتھ لے گیا تھا۔
ریلوے افسر بار بار یہاں آتے ہیں اور جگہ جگہ سروے کرتے ہیں۔ وہ ہمیں یقین دہانی کرواتے ہیں کہ ہم ریل کو بحال کر رہے ہیں، لیکن اس پر کوئی عملی کارروائی نہیں ہوئی۔ 15 سال ہو گئے کہ یہاں ریل نہیں آئی۔‘
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ریل نہ ہونے کے باوجود پٹریوں کی حفاظت کے لیے لنڈی کوتل سے پشاور تک 27 لوگ تعینات ہیں جو دن رات ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔‘
البتہ ہم نے دیکھا کہ کئی جگہوں پر دن رات کی ڈیوٹی کے باوجود پٹریاں غائب ہیں۔ لنڈی کوتل اور اس سے آگے مچنی تک جگہ جگہ ٹوٹے ہوئے سلیپر، اکھڑی ہوئی پٹریاں، اور بوسیدہ سرنگیں کے اندر ایک عبرت ناک داستان سناتی ہیں، بلکہ بعض جگہوں پر تو ریل کی سرنگوں کے اندر بکریوں کے باڑے بنے ہوئے ہیں۔
یہ تو زوال کی بات ہوئی، لیکن ایک زمانہ تھا جب ریلوے کا صرف رواج نہیں بلکہ راج تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کو دراصل انگریزوں کی فوج نے نہیں بلکہ صحیح معنوں میں ریل نے فتح کیا۔
انجن کو کون کھینچ رہا ہے؟
یہ ریلوے کب اور کیسے ہندوستان پہنچی اور انگریزوں کو اس کا خیال کیسے آیا؟
1860 کے لگ بھگ کراچی کے شہریوں نے ایک عجیب منظر دیکھا جس نے ان کے ہوش اڑا دیے۔ انجینیئر جان برنٹن نے اس واقعے کا احوال یوں بیان کیا ہے:
’سندھ کے شہریوں نے کبھی ریلوے انجن نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے افواہ سنی تھی کہ یہ انجن بھاری بوجھ کو کسی ان دیکھی طاقت کی مدد سے کھینچتا ہے جو ان کی سمجھ سے باہر تھی۔
وہ یہ دیکھ کر ڈر گئے کہ شاید کوئی شیطانی طاقت اس انجن کو دھکیل رہی ہے۔ جب میں نے انجن چلانا شروع کیا تو کراچی کے شہری اسے دیکھ کر ہکابکا رہ گئے۔
میں انجن سست رفتار سے چلا رہا تھا۔ لوگوں کا ہجوم چاروں طرف اکٹھا ہو گیا۔ مجھے ڈر لگا کہ کہیں کوئی حادثہ نہ ہو جائے اس لیے میں انہیں ڈرانے کے لیے سٹیم کی سیٹی بلند آواز سے بجا دی۔ وہ ایک دوسرے کے اوپر گرتے پڑتے بھاگ کھڑے ہوئے۔‘
لیکن بمبئی میں کراچی سے بھی پہلے ریلوے کا آغاز ہو چکا تھا۔ انگلستان میں دنیا کی پہلی ریل گاڑی 1825 میں چلی تھی، اس کے بعد 1840 کی دہائی میں ہندوستان میں بھی ٹرین چلانے کی باتیں شروع ہو گئیں۔
ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں ریل چلانے کے خلاف کیوں تھی
دلچسپ بات یہ ہے کہ شروع شروع میں ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں ریل چلانے کے خلاف تھی۔ اس کا خیال تھا کہ چونکہ یہاں ذات پات کا نظام قائم ہے اور اونچی ذات والے کبھی نچلی ذات والوں کے ساتھ سفر نہیں کریں گے، اس کے علاوہ یہاں سیلاب اور آندھیاں بہت آتی ہیں، خطرناک جنگلی جانوروں کی بہتات ہے، قابل انجینیئر اور تجربے کار ٹھیکے دار کہاں سے آئیں گے، وغیرہ وغیرہ، اس لیے یہاں ریل کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔
لیکن ریل چلانے کے حق میں جو لوگ تھے وہ اتنے طاقتور تھے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو بالآخر نہ چاہتے ہوئے بھی گھٹنے ٹیکنے پڑے۔
ان لوگوں میں سب سے طاقتور کپاس کے تاجر تھے، جو یہاں کی منڈیوں سے فصل اٹھا کر اسے انگلستان کی ٹیکسٹائل فیکٹریوں تک پہنچانا چاہتے تھے۔چنانچہ 16 اپریل، 1853 کو جب بمبئی سے تھانہ تک جب ٹرین چلی تو وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ ایشیا کی بھی پہلی ٹرین تھی۔
صاحب سندھ سلطان
اس ٹرین کے پہلی بار چلنے کا واقعہ بہت دلچسپ ہے، جس کے انجن کا نام ’صاحب سندھ سلطان‘ رکھا گیا تھا۔ لوگوں نے ایسی کوئی چیز پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ’صاحب سندھ سلطان‘ کو کوئی گھوڑا، کوئی بیل یا ہاتھی نہیں کھینچ رہا تو چل کیسے رہا ہے؟
یقیناً کوئی جن بھوت ہیں جو کوئلہ پھانکتے دھواں اگلتے کالے سیاہ بھیانک شور مچانے والے انجن کو دھکیل رہے ہیں۔
ایک افواہ جو ریل کی رفتار سے بھی تیزی سے پھیلی وہ یہ تھی کہ گورے چھوٹے بچوں کو پکڑ کر انہیں ریل کی پٹری کے نیچے دفن کر دیتے ہیں اور اس کالے جادو کے ذریعے انجن کو طاقت ملتی ہے۔
ریل کے تاریخ کا رخ موڑ دیا
ریل جب ہندوستان پہنچی تو اس نے چند برسوں کے اندر اندر ہندوستان کی تاریخ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ جیسا کہ ہم نے شروع میں بتایا، آج تک کسی ایجاد یا مشین نے دنیا کو اتنی تیزی سے نہیں بدلا جس طرح ریل نے۔ وہ کیسے؟
فرض کریں آپ نے 1840میں کلکتہ جانا ہے، اور آپ کوئی راجہ مہاراجہ نہیں بلکہ ایک عام آدمی ہیں۔ بھول جائیے۔ ڈھائی ہزار میل کے اس سفر کے لیے آپ کو کئی زندگیاں چاہیے ہوں گی۔
اس زمانے میں سفر کا عام وسیلہ بیل گاڑی تھا۔ بیل گاڑی کی رفتار تین کلومیٹر فی گھنٹہ کے لگ بھگ ہوتی ہے، جو پیدل سے بھی سست ہے۔پھر کچے راستے، کیچڑ، دھول، گڑھوں کا مسئلہ الگ، بارش آندھی طوفان جدا، چوروں لیٹروں کا خطرہ جدا، بیماری، قحط اور بھوک کی مصیبت الگ۔ ہر بیس پچیس کلومیٹر کے بعد سرائے میں رات گزارنے کا خرچ الگ۔
پھر سب سے بڑا کانٹا یہ کہ راستے میں درجنوں چھوٹے بڑے دریا اور سینکڑوں ندی نالے آتے ہیں۔ بیل گاڑی یا گھوڑا دریائے سندھ، گنگا یا برہم پتر کیسے پار کرے؟
آپ کو یاد دلا دوں کہ ہندوستان میں ریلوے سے پہلے کسی دریا پر کوئی پل نہیں تھا، تمام پل ریلوے کے لیے بنے۔ سڑکوں کے پل ریلوے کے ساٹھ ستر سال بعد بنائے گئے۔ ان پلوں نے گوند کی طرح ملک کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک کر دیا۔
وہ لڑی جس نے ہندوستان کو آپس میں پرو دیا
ریل سے پہلے ہندوستان کا ہر علاقہ ایک جزیرے کی مانند تھا۔ ایک عام آدمی اپنے آبائی علاقے سے دس پندرہ میل سے زیادہ دور نہیں جاتا تھا نہ اس کی ضرورت پڑتی تھی۔ نوکریاں، رشتے داریاں بھی قریبی علاقوں میں ہوا کرتی تھیں۔
روزمرہ ضرورت کی تقریباً ہر چیز مقامی طور پر مقامی اجزا سے تیار ہوتی تھی۔ صرف شاہی خاندان یا رئیس اور نواب ہی دور دراز کے علاقوں سے لائی گئی اشیا استعمال کرنے کی سکت رکھتے تھے۔
ریلوے نے آ کر یہ سارا نظام الٹ پلٹ دیا۔ ریلوے کی پٹریاں صرف لوہے کے ٹکڑے نہیں، بلکہ وہ دھاگہ تھا جس نے تمام ہندوستان کو آپس میں پرو دیا۔
تاریخ میں پہلی بار ممکن ہو گیا کہ کوئی شخص ہفتے دس دن کے اندر اندر لنڈی کوتل سے کراچی، کراچی سے بمبئی، بمبئی سے مدراس اور وہاں سے کلکتہ کا سفر کر سکے۔
اب لنڈی کوتل کے کسی قبائلی کے لیے بمبئی میں، کراچی والے کے لیے کلکتہ میں اور ڈھاکہ کے باسی کے لیے کوئٹہ میں نوکری کرنا عام سی بات ہو گئی، جس کا چند سال پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ رضا علی عابدی اپنی کتاب ’ریل کہانی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’جب سے ریل گاڑی چلی ہے، لوگ اپنی بیٹیوں کو دور دور بیاہنے لگے ہیں۔‘
آج ہم کسی دور دراز کے گاؤں دیہات کی دکان میں بھی پڑا سامان دیکھیں تو وہ نہ صرف ملک بلکہ دنیا کے کونے کونے سے یہاں تک پہنچا ہے۔ اس عمل کا آغاز ریلوے نے کیا۔
جب سفر آسان ہوا تو ایک علاقے میں بننے والا سامان بھی دوسرے علاقوں میں آسانی سے پہنچنے لگا۔ اس سے چیزیں کی قیمتیں بھی کم ہو گئیں۔
اب نہ صرف دوسرے علاقوں بلکہ دوسرے ملکوں سے مال بندرگاہوں تک اور وہاں سے ریل کے ذریعے ملک کے کونے کونے تک دستیاب ہونے لگا، اور یہاں کا مال دوسرے ملکوں میں جانے لگا، لیکن اس کا ذکر تھوڑی دیر بعد۔
وقت
اس کے علاوہ معیاری وقت کا تصور بھی ریل نے دیا۔ ریل سے پہلے ہر علاقے کا اپنا اپنا وقت ہوا کرتا تھا، اور کوئی زحمت نہیں کرتا تھا کہ اسے ملک کے دوسرے حصوں سے ملائے، نہ اس کی کوئی ضرورت تھی۔ اگر لاہور میں صبح کے آٹھ بجے ہیں تو اس وقت مدراس میں سوا آٹھ بجے ہوں تو کیا فرق پڑتا ہے؟ بیل گاڑی تو مہینوں بعد وہاں پہنچے گی۔
ریل آئی تو ٹائم ٹیبل بھی ساتھ لائی۔ ریل کی کارکردگی کے لیے ضروری تھا کہ ہر جگہ کا وقت یکساں ہو تاکہ ریل کے نظام الاوقات کی پابندی کی جا سکے، ورنہ ہر شہر کا وقت چند منٹ بھی آگے پیچھے ہوتا تو ریل کا سارا نظام ہی بیٹھ جاتا۔ یہیں سے سٹینڈرڈ ٹائم آیا۔
صارفیت
مزید یہ کہ صارفیت کو بھی ریلوے نے فروغ دیا۔ ریل چلنے کے بعد مصنوعات کا ریلا ہندوستان کے گوشے گوشے میں پہنچ گیا۔ صابن، بسکٹ، سگریٹ، اور دوسری درجنوں مصنوعات ملک کی ہر دکان میں پہنچ گئیں۔
اب جو چیز ڈھاکہ کی کسی دکان میں ملتی، وہی چیز آپ ایران کی سرحد پر چمن میں بھی خرید سکتے تھے۔ اس بات کا تصور بھی چند سال پہلے ناممکن تھا۔
ڈاک
ڈاک کا نظام پہلے موجود تھا، مگر انتہائی سست اور ناقابلِ اعتبار، اسے بھی ریل نے مہمیز کر دیا۔ اگر ریل نہ ہوتی تو غالب کے لیے بھی ایک ہزار کے لگ بھگ لوگوں سے خط و کتابت کرنا ممکن نہ ہوتا اور آج ہم غالب کی دل پذیر نثری تحریروں سے بڑی حد تک محروم رہتے۔
اس طرح ریل ٹیلی ویژن، ریڈیو، ٹیلی فون، کمپیوٹر یا انٹرنیٹ سے بھی زیادہ تہلکہ خیز ایجاد قرار دی جا سکتی ہے۔
ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ٹیلی ویژن یا انٹرنیٹ وغیرہ کا اتنا فوری اور دور رس اثر نہیں ہوا جتنا ریل کا۔
ہندوستان کی آزادی میں بھی ریل نے مدد دی
یہی وجہ ہے کہ سامان اور لوگوں کی آمد و رفت ہی نہیں، ڈاک، اخباروں، رسالوں اور کتابوں کی ملک بھر میں آسان رسائی کی وجہ سے خیالات اور نظریات کی ترسیل بھی بےحد آسان ہو گئی۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اگر ریل نہ ہوتی تو ہندوستان کی آزادی کی تحریک کو بھی کامیاب ہونے میں بہت وقت لگ جاتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ تو بعد کی بات ہے مگر جب ریل آئی تو ہندوستان کے پڑھے لکھے طبقے میں بےچینی کی لہر دوڑ گئی۔ انہیں نظر آنے لگا کہ جو کام انگریز کی فوج نہ کر سکی، وہ ریل کر دے گی۔
معروف نقاد اور دانشور ناصر عباس نیر کہتے ہیں کہ ’ریلوے کے ساتھ ایک رومانس اور ناسٹیلجیا منسلک ہے، اور اسے برطانوی راج کی برکتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
ریل کا کالا انجن سفید آقاؤں کی طاقت کا سب سے بڑا مظہر تھا اور جب یہ انجن چلتا تھا تو دیکھنے والے اسے انگریز کی سیاسی، فوجی اور ٹیکنالوجیکل طاقت کے ساتھ ملا کر دیکھتے تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ریلوے نے ہندوستان کے صرف زمینی نقشے کو تبدیل نہیں کیا بلکہ ذہنی نقشہ بھی بدل دیا۔ ہم اسے انگریزوں کے احسانات میں سرِ فہرست رکھتے ہیں مگر اس کا جو تاریک پہلو تھا اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘
کہاں کھینچ لے جائے گا ہم کو انجن
یہ تاریک پہلو دوسروں کی نظروں نے اوجھل رہا ہو تو ہو، اردو شاعر اکبر الہ آبادی کی کاٹ دار طنزیہ شاعری سے نہیں بچ سکا کیوں کہ انہوں نے ہندوستان کی تہذیب پر ریلوے کے تباہ کن اثرات، اور اس کے اصل مشن کو ابتدا ہی میں بھانپ لیا تھا:
آگے انجن کے دین ہے کیا چیز / بھینس کے آگے بین ہے کیا چیز
چھٹے ہم سے بالکل وہ اگلے طریقے / کہاں کھینچ لے جائے گا ہم کو انجن
کہتے ہیں راہِ ترقی میں ہمارے نوجواں / خضر کی ہم کو نہیں حاجت جہاں تک ریل ہے
اس کا پسیجنا ہے اور اس کے ہیں بھپارے / یورپ نے ایشیا کو انجن پر رکھ لیا ہے
برطانیہ کو براہِ راست مالی فائدہ
انگریزوں نے ہندوستان کو انجن پر رکھنے کے لیے کئی برطانوی کمپنیوں کو ٹھیکے دیے۔ ایک چالاکی یہ کی گئی کہ ان کمپنیوں کو نقصان کے خوف سے بے نیاز کر دیا گیا۔
چاہے کمپنی کتنے ہی خسارے میں چلی جائے، اسے ہر صورت پانچ فیصد منافع ہندوستانیوں کی جیب کاٹ کر دیا جاتا تھا۔ اس طرح ریلوے کی مد میں لاکھوں پاؤنڈ ہندوستان سے نکل کر انگریزوں کی تجوریاں بھرنے لگے۔
چونکہ نقصان کا خطرہ نہیں تھا، اس لیے یہ کمپنیاں دل کھول کر پیسہ لٹاتی تھیں۔
ششی تھرور اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جو کمپنیاں اسی زمانے میں آسٹریلیا یا کینیڈامیں ریلوے لائن دو ہزار پاؤنڈ فی میل میں بچھاتی تھیں، ہندوستان میں یہی کمپنیاں ایک میل پٹری بچھانے پر 18ہزار پاؤنڈ خرچ کرتی تھیں۔
روس کا ڈر
اس سے بھی آگے بڑھ کر ریل کا جال بچھانے کے پیچھے ایک اور وجہ تھی۔ اور وہ تھی فوجی ضروریات۔ 1857کی جنگِ آزادی نے ریل کی ضرورت میں مزید شدت پیدا کر دی۔
ریل کی وجہ سے انگریزوں کو ہر علاقے میں بڑی تعداد میں فوج رکھنے کی ضرورت نہ رہی، کیوں کہ اگر ملک کے کسی ایک صوبے میں بغاوت ہوتی ہے تو چند گھنٹوں کے اندر د وسرے صوبے سے فوج وہاں پہنچ سکتی تھی۔
اب اسی لنڈی کوتل کو لے لیجیے۔ یہاں ریل پہنچانے کا کوئی معاشی فائدہ نہیں تھا کیوں کہ یہاں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جسے دوسرے علاقوں میں پہنچانے کی ضرورت ہو۔ نہ ہی یہاں کوئی بہت بڑی آبادی تھی۔
اصل مسئلہ لنڈی کوتل کے قریب ہی واقع پہاڑوں کے پیچھے موجود افغانستان کا تھا۔ جس زمانے میں انگریزوں نے ہندوستان میں ریل متعارف کروانے کا منصوبہ شروع کیا، لگ بھگ اسی دوران روس بھی وسطی ایشیا میں پٹریاں بچھانے میں تیزی سے سرگرم تھا۔
1889 میں روس افغان سرحد سے صرف ڈھائی سو کلومیٹر دور مرو شہر تک ریل پہنچا چکا تھا۔ انگریزوں کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں روس آگے بڑھ کر افغانستان سے ہوتا ہوا ہندوستان پر حملہ نہ کر دے۔
اس لیے انہوں نے اس دور دراز اور انتہائی دشوار گزار علاقے کو بھی ریل سے منسلک کر دیا تاکہ اگر افغانستان کی طرف سے حملہ ہو تو اس کا دفاع ریل کی مدد سے کیا جا سکے۔
یہی وجہ ہے کہ انگریزوں نے کئی ٹرین سٹیشن جنگی قلعوں کی شکل میں تعمیر کیے، جن میں مشین گنیں چلانے کے لیے روزن چھوڑے گئے۔ لاہور کا ٹرین سٹیشن اس کی عمدہ مثال ہے۔
اربوں سفر
ایسٹ انڈیا کمپنی کو چاہے جتنے بھی خدشے رہے ہوں، ہندوستان میں ریل چلی تو ایسی چلی کہ تمام خدشے اور اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
ہندوستان میں ریل کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 1905 میں ریل کے ذریعے بیس کروڑ مسافروں نے سفر کیا، تو 1946میں یہی تعداد بڑھ کر ایک ارب سے تجاوز کر گئی۔
یہ مت سمجھیے کہ ایک ارب لوگوں نے 1946 میں ریل پر سفر کیا تھا کیوں کہ اس وقت ہندوستان کی کل آبادی 36کروڑ تھی۔
یہ دراصل ایک ٹکٹوں کی بات ہو رہی ہے جو اس سال لوگوں نے خریدے۔ یعنی ہندوستان ننے 1946 میں ایک ارب سفر کیے۔ کیا سو سال پہلے اس کا تصور بھی ممکن تھا؟
انگریز نہ ہوتے تو ہندوستان میں ریل بھی نہ آتی؟
بہت سے لوگ آج بھی سمجھتے ہیں کہ ریل انگریزوں کا ہندوستان کو انمول تحفہ تھا۔ اگر مثال کے طور پر ہندوستان پر مغلوں کی حکومت ہوتی تو کیا ہندوستان میں کبھی ریل نہ آ پاتی؟
یہ بات بالکل بےبنیاد ہے کہ ہندوستان کو انگریزوں نے ریلوے کی شکل میں ایک تحفہ دیا۔ چین، ایران، روس اور سینکڑوں دوسرے ملکوں پر انگریزوں کا کبھی قبضہ نہیں رہا مگر انہوں نے بھی ریلوے نظام قائم کر لیے۔
یہ دراصل پرائیویٹ کمرشل کمپنیاں تھیں جو ریل کی پٹریاں بچھاتی تھیں اور ان پر انجن چلاتی تھی اور متعلقہ سارے لوازمات پورے کرتی تھیں۔
جو کوئی ان کے پیسے دیتا، وہ اسے نظام بنا کر دے دیتیں۔ اس کے لیے قبضے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
جیسے آج کے دور میں آپ کو موبائل نیٹ ورک بچھنے کے لیے کسی ملک کو فتح کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ کمپنیوں کو ٹھیکہ دینے کی ضرورت ہے، بالکل ایسا ہی ریلوے کے لیے بھی تھا۔‘
پاکستان میں ریلوے زوال کا شکار کیوں؟
پاکستان میں 2019 میں سات کروڑ لوگوں نے ریل سے سفر کیا جو کل آبادی کا 31 فیصد بنتا ہے جب کہ بھارت میں ایک سال میں پانچ ارب لوگ سفر کرتے ہیں جو کل آبادی کا 400 فیصد ہے۔ یعنی آبادی کے فرق کو نکال کر بھارت میں پاکستان کے مقابلے پر ریل کا سفر 12 گنا زیادہ کیا جاتا ہے۔
آج جب کہ پیٹرول کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، سڑکوں پر گاڑیوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا ہے، ریل آج بھی دنیا میں سب سے سستا، سب سے آرام دہ اور سب سے محفوظ طریقۂ سفر ہے۔ تو پھر پاکستان ریلوے کو نظر انداز کیوں کر رہا ہے؟
اس سوال کا جواب پاکستان ریلوے کے سابق آڈیٹر جنرل شیراز حیدر نے یوں دیا کہ ’اس کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں کہ ٹرک مافیا نے ریل کو جان بوجھ کر ناکام کیا، وغیرہ، مگر اصل وجہ یہ ہے کہ 90 کی دہائی میں حکومتوں کی ترجیحات ریلوے سے ہٹ کر موٹر وے اور ایکسپریس ہائی ویز کی طرف ہو گئیں۔
کھربوں روپے سڑکوں پر لگا دیے گئے مگر ریلوے کو یتیم بچے کی طرح نظر انداز کیا گیا۔ یہی اس کی زبوں حالی کی سب سے اہم اور سب سے بڑی وجہ ہے۔
سو آج برصغیر ہند و پاکستان میں ریلوے کے 169 برس ہو گئے۔ اس دوران اس نے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزوں نے اپنے مفاد کی خاطر ریلوے بچھائی تھی مگر اس کا حتمی فائدہ برصغیر کے لوگوں کو ہی ہوا۔
آج یہ ان ملکوں کی حکومتوں پر منحصر ہے کہ وہ اس ورثے کو کتنا فروغ دیتی ہیں یا اسے زنگ آلودگی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے لیے چھوڑ دیتی ہیں۔