فیصل آباد آرٹس کونسل میں نصرت فتح علی خان کی برسی کے سلسلے میں ہونے والی ایک تقریب کے دوران پرتشدد واقعے کی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے جس کی دفعات میں توہین مذہب کی دفعہ بھی شامل ہے۔
ایس پی پولیس لائنز فیصل آباد رائے اجمل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایف آئی آر کا نمبر 1020\22 ہے۔ ’اس کیس کی تفتیش کے لیے ایک خصوصی ٹیم بھی تشکیل دے دی گئی ہے اور جیسے ہی اس کیس کی تفتیش کے دوران مزید معلومات سامنے آئیں گی میڈیا کو بتا دی جائیں گی۔‘
ان کے مطابق: ’یہ ایف آئی آر تعزیرات پاکستان دفعہ 395، 427، 506 بی، 295 اے، 148 اور 149 کے تحت درج کی گئی ہے۔‘
سوشل میڈیا پر موجود ایک وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ قوال گا رہے ہیں، ان کے عقب میں نصرت فتح علی خان کے پوسٹر لگے ہیں۔ ایک شخص اپنی نشست سے اٹھتے ہیں اور سٹیج پر جا کر پہلے تو مائک کی تار کھینچتے ہیں اور پھر اپنا تعارف ضلعی بار کونسل کے نائب صدر سرور بٹ ایڈوکیٹ کے طور پر کراتے ہیں۔ اس کے بعد قوالوں کو گالی دے کر کہتے ہیں کہ ’لاثانی صرف اللہ کی ذات ہے کوئی اور لاثانی نہیں۔‘
ابھی وہ یہ سب کہہ ہی رہے ہوتے ہیں کہ چند مسلح افراد جن میں سے کچھ نے سکیورٹی کا یونیفارم بھی پہن رکھا ہے انہیں تھپڑ مارتے ہوئے اور گھسیٹتے ہوئے وہاں سے لے جاتے ہیں۔
اس ویڈیو میں دیکھے جانے والے سرور بٹ نے اس واقعے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ 17 اگست کا واقعہ ہے، میں چونکہ فیصل آباد بار کونسل کا نائب صدر ہوں اور اس وقت ایکٹنگ صدر بھی ہوں تو فیصل آباد آرٹس کونسل نے مجھے نصرت فتح علی خان کی برسی کے حوالے سے ہونے والی تقریب میں بطور مہمان خصوصی مدعو کر رکھا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’بہت اچھا فنکشن چل رہا تھا۔ رات کا وقت تھا اور ہم قوالیاں سن رہے تھے۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ وہاں آئے اور فیصل آباد کے آستانہ عالیہ لاثانی سرکار کے نام کے بڑے بڑے فلیکس وہاں آویزاں کرنے لگے۔‘
’آرٹس کونسل والوں نے فوری وہ فلیکس وہاں سے اتروا دیے مگر پھرلاثانی سرکار کے پیر شبیر احمد وہاں پہنچ گئے اور ان کے ساتھ 150 سے زیادہ گارڈز اورمریدین بھی تھے۔ وہ لوگ وہاں بیٹھے گئے۔ اس کے بعد ان کا ایک مرید اٹھا اور اس نے جا کر قوال کو پیسے دیے اور قوال سے بولا کہ وہ پیرشبیر احمداور ان کے روحانی پیشوا کے قصیدے پڑھے۔ جب قوال نے ایسا کیا تو اس میں کچھ ایسی باتیں بھی کیں جو ’شرک‘ کے مترادف تھیں۔‘
’مجھ سے وہ برداشت نہیں ہوئیں اور میں سٹیج پر چڑھ گیا اور انہیں اپنے انداز میں منع کیا۔ اتنے میں اسی پیر کے مسلح گارڈ اور مریدین نے مجھ پر حملہ کر دیا اور مجھے مارنا شروع کردیا۔ میں وہاں سے باہر آیا اور 15 پر پولیس کو کال کر کے بتایا۔‘
سروربٹ نے بتایا کہ ’آستانہ عالیہ پیرلاثانی سرکار کے نام سے شبیر احمد ایک لمبے عرصے سے فیصل آباد میں کام کر رہے ہیں۔ اس سے قبل ان کے والد یہ کام کرتے تھے جو کچھ عرصہ پہلے قتل ہو گئے تھے۔‘
سرورنے بتایا کہ انہوں نے واقعے کی ایف آئی آر تھانہ سول لائنز میں درج کروائی اور اس میں 13 معلوم افراد سمیت 150 نامعلوم افراد (کُل 163 افراد) کونامزد کیا ہے۔
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے آستانہ عالیہ لاثانی سرکار متعدد بار فون کیا مگر وہاں سے کوئی جواب نہیں ملا۔ جبکہ پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج ہونے کی اطلاع کے علاوہ کوئی واضح معلومات نہیں دی گئیں۔
ایس پی رائے اجمل نے یہ نہیں بتایا کہ اب تک اس کیس میں کتنے لوگ پولیس کی حراست میں ہیں۔
سرور بٹ کے مطابق ’جب وہاں موجود پیراور ان کے مریدین کو یہ معلوم ہوا کہ معاملہ پولیس تک پہنچ گیا ہے تو وہ سب موقع سے فرار ہو گئے تھے۔‘