صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والی 100 سے زائد سماجی شخصیات نے صوبائی حکومت کو لکھے جانے وال خط میں حالیہ سیلاب سے متاثر ہونے والے افراد کی مدد کی اپیل کی ہے۔
سندھ کے ادیبوں، صحافیوں، ماہرین تعلیم، استادوں شاعروں سمیت سول سوسائٹی سے وابستہ شخصیات نے صوبے میں مون سون بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور طور پر صوبے میں امدادی کارروائیاں شروع کی جائیں۔
سندھ حکومت کو مراسلے کے طور پر بھیجنے کے لیے لکھے گئے 16 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پر سول سوسائٹی کی 100 سے زائد نمایاں شخصیات نے دسخظ کیے ہیں۔ ان میں امرسندھو، جامی چانڈیو، نورالہدیٰ شاہ، ڈاکٹرعرفانہ ملاح، ڈاکٹر امداد چانڈیو، نصیرمیمن اور دیگر شامل ہیں ۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں حالیہ بارشوں کے بعد ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ضرورت مند لوگوں کے پاس پہنچنے اور شہری ایجنسیاں شہری اور نیم شہری علاقوں سے پانی نکالنے میں ناکام رہیں ہیں، جس کے باعث انفراسٹرکچر، اجرتی مزدوروں اور چھوٹے کاروباروں کو بہت نقصان پہنچا ہے۔
خط کے مراسلے کے مطابق لاکھوں لوگ پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان کے جلد اور فوری انخلا کے بعد انہیں اور ان کے مویشیوں کو پناہ، خوراک، پانی، ادویات اور ویکسین کی ضرورت ہو گی۔ مراسلے میں میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی میڈیا نے بارش کی تباہ کاریوں اور سیلابی صورت حال کو یکسر نظرانداز کیا ہے۔
مزید کہا گیا کہ ’آفات کے شکار علاقوں میں ریسکیو، ریلیف اور ری ہیبلیٹیشن حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔ حکومت کو امدادی کاموں کے لئے بین الاقوامی ہیو مینیٹرین ایجنسیوں کو بلانا چاہئیے۔‘
اس کے علاوہ خط میں ٹینٹوں، صاف پانی، خوراک ، ادویات، حفظان صحت کی کٹس، اور مچھر دانیوں کی فوری فراہمی کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
چارٹر آف ڈیمانڈ کے مطابق: سندھ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ 25000 روپے کی امدادی رقم بہت کم ہے۔ اسے بڑھا کر ایک لاکھ کیا جائے۔ کسانوں کا ٹیکس معاف کیا جائے اور انہیں خصوصی زرعی پیکیج دیے جائیں تاکہ وہ قلیل المدت کاشت کاری کر سکیں اور غربت کی نچلی سطح پر پہنچنے سے بچ سکیں۔‘
خط میں مزید کہا گیا کہ ’حکومت اور سول سوسائٹی کو اشیا کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا چاہئیے۔عورتوں، بچوں، ٹرانس جینڈرز، معمر افراد اور مختلف صلاحیتیں رکھنے والے لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے امر سندھو نے الزام عائد کیا کہ سندھ حکومت اس بار شدید مون سون بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی سیلابی صورت حال کے بعد بھی ریلیف کا عمل شروع نہیں کر سکی۔
ان کے مطابق: ’سندھ میں 2010، 2011 اور 2018 میں بھی سیلاب آئے تھے مگر اس وقت حکومت کی جانب سے فوری طور پر کیمپ لگا دیے گئے تھے۔ اس سے نہ صرف حکومت بلکہ این جی او اور دیگر ایڈ ایجنسیز کے لیے آسانی تھی کہ اگر وہ سیلاب متاثرین کے لیے کچھ کرنا چاہیں تو سیدھا حکومتی کیمپ پر چلے جائیں اور جو مدد کرنی ہے وہ کر سکیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امر سندھو نے دعویٰ کیا کہ سندھ کے دو اضلاع کی ضلعی انتظامیہ نے وہاں کے سیلاب متاثرین کی مدد کرنے یا ان کو ریلیف دینے کے بجائے اپنے سرکاری ہینڈ آؤٹس میں این جی اوز سے اپیل کی کہ وہ آکر سیلاب متاثرین کی مدد کریں۔
ان کے مطابق: ’سندھ حکومت نے حال میں اعلان کیا ہے کہ سیلاب متاثر خاندانوں میں 25000 روپے فی خاندان تقسیم کیے جائیں گے۔ اس مہنگائی کے دور میں یہ رقم انتہائی کم ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں اس رقم کو بڑھا کر ایک لاکھ روپے فی خاندان کیا جائے۔‘
امرسندھو کا کہنا ہے کہ ’سندھ کی سول سوسائٹی کی جانب سے لکھے گئے اس مراسلے کو جلد ہی وزیراعلی سندھ کو ارسال کیا جائے گا۔‘
دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’سندھ حکومت ممکنہ طور پر سیلاب متاثرین کی مکمل طور پر مدد کر رہی ہے۔‘
عبدالرشید چنا کے مطابق: 'بارش اور سیلاب سے متاثر 23 اضلاع کو سندھ حکومت آفت زدہ قرار دے چکی ہے۔ ان اضلاع میں سکولوں، ہسپتالوں اور دیگر سرکاری عمارتوں میں تاحال 166 سرکاری کیمپ لگائے جاچکے ہیں۔‘
’سندھ حکومت 25000 روپے فی خاندان کے حساب سے 85 ہزار خاندانوں کو امدادی رقم دے رہی ہے۔ اگر ایک خاندان میں سات افراد کا اندازہ لگایا جائے تو چھ لاکھ کے قریب افراد اس رقم سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔‘
ان کے مطابق ’یہ کہنا کہ سندھ حکومت نے کچھ نہیں کیا، درست نہیں ہے۔ وزیر اعلی سندھ نے خود دو روز کے دوران 11 اضلاع کا دورہ کر کے ہدایت کی ہے کہ متاثرہ افراد کی فوری طور پر ہر ممکن مدد کی جائے۔ اس کے علاوہ صوبائی حکومت نے ہر ضلعے میں سیلاب انچارج مقرر کیا ہے اور وہ لوگ دن رات اپنے اضلاع میں کام کر رہے ہیں۔‘
بارش کے پانی کی نکاسی نہ ہونے والے سوال پر عبدالرشید چنا نے کہا کہ ’بارش مسلسل ہورہی ہے، کچھ وقت کے لیے بارش رکے تو پانی کی نکاسی بھی ہوجائے گی۔‘
’نااہلی عیاں‘
ادھر لاہور میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی چیئرپرسن حنا جیلانی کی جانب سے جاری ایک بیان میں ملک بھر خصوصاً بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب میں سیلاب سے ہونے والے جانی و مالی نقصان پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی و صوبائی حکومتوں اور حزبؚ اختلاف کی بے حسی پر کہا ہے کہ اس سے ان کی نااہلی عیاں ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ یہاں تک کہ بڑھتی ہوئی اموات کے باوجود بھی وہ انسانی زندگی پر محاذ آرائی کی سیاست، محلاتی سازشوں اور خطرناک بیان بازی کو ترجیح دے رہے ہیں۔
’تباہی کی شدت کا فوری طور پر جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور متاثرہ افراد کو فوری طور پر پینے کے صاف پانی کے ساتھ ساتھ بنیادی خوراک اور طبی سامان تک رسائی فراہم کی جائے۔ ریاست کو اس حوالے سے سب سے زیادہ کمزور گھرانوں اور طبقوں کو ترجیح دینی چاہیے، جن میں خواتین، زیر کفالت بچے، معذوریوں سے متاثر افراد، بیمار اور بوڑھے شامل ہیں۔‘