لاڑکانہ ڈویژن میں اغوا برائے تاوان کے متعدد کیسز سامن آتے رہتے ہیں۔ اس ڈویژن کے اضلاع شکارپور اور کندھ کوٹ کشمور کے کچے میں ڈاکوؤں کی پناہ گاہیں قائم ہیں جہاں نہ صرف پورے سندھ بلکہ جنوبی پنجاب اور بلوچستان سے بھی اغوا کیے گئے افراد کو لا کر رکھا جاتا ہے اور مہینوں ڈاکوؤں کے قبضے میں رہنے کے بعد مغوی بالآخر تاوان ادا کر کے ہی رہا ہوتے ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق مختلف خطوں کے ڈاکوؤں کی چھوٹی ٹولیاں ایک دوسرے سے رابطے میں رہتی ہیں اور بیشتر اوقات میں مغوی کو ایک جگہ سے اغوا کرکے دوسرے ڈاکوؤں کی ٹولی کو نقد پر فروخت کر دیا جاتا ہے اور مغوی کا دام اس کی حیثیت کے مطابق لگتا ہے۔
لیکن اگر مغوی کو کوئی نہ خریدے تو خود ہی اسکا تاوان وصول کیا جاتا ہے۔
ڈاکوؤں کی آماجگاہوں اور پولیس کے لیے نو گو ایریا کی بات کی جائے تو وہ خطہ راجن پور رحیم یار خان سے سکھر بیراج تک کا کچے کا علاقہ ہے۔ دریائے سندھ کے دائیں جانب ضلع گھوٹکی اور سکھر ہیں جبکہ بائیں جانب ضلع شکارپور اور کندھ کوٹ ہیں یہ تقریبا ایک سو کلومیٹرز سے بھی کم فاصلے پر مشتمل پٹی پولیس کے لیے ہمیشہ ایک چیلنج ثابت ہوئی ہے۔
پولیس نے کئی آپریشنز کرنے کی کوشش کی لیکن ناقص انفراسٹرکچر کے باعث پولیس کے افسران اور اہلکار اے پی سیز (بکتر بند گاڑیوں) کے اندر بیٹھے بھی ڈاکوؤں کی فائرنگ کا نشانہ بن کر جان سے گئے۔
ڈاکوؤں کے پاس اینٹی ائیر کرافٹ گنز اور جی تھری جیسے لانگ رینج اسلحے بھی ہیں جس سے وہ بے دھڑک پولیس پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
لیکن اب ڈاکوؤں نے گزشتہ چند سالوں سے اپنی اغوا برائے تاوان کی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے۔ اب ڈاکو انجان نمبرز پر کالز ملا کر فون اٹھانے والے کو خاتون کی آواز میں باتیں کر کے اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان باتوں کے جال میں پھنسے والا شخص جب خاتون سے ملاقات کی لالچ میں ڈاکوؤں کے بتائے ہوئے پتے پر ملاقات کے لیے پہنچتا ہے تو اسکا استقبال کرنے کے لیے مسلح افراد پہلے سے موجود ہوتے ہیں اور فون کالر آسانی سے اغوا ہو جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سلسلے میں انڈیپینڈنٹ اردو نے جب ڈی آئی جی لاڑکانہ مظہر نواز شیخ سے گفتگو کی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ رجحان ضلع گھوٹکی سے شروع ہوا اور اب بھی سب سے زیادہ وہیں ہے۔
ڈی آئی جی لاڑکانہ کا کہنا تھا کہ زیادہ تر لوگ شرم کے باعث مقدمہ درج نہیں کرواتے تھے اس لیے کوئی کارروائی بھی نہیں ہوتی تھی، اور پولیس نے بھی پہلے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ تاہم گزشتہ ایک سال سے لاڑکانہ ڈویژن کی پولیس نے ان کیسز پر کام کیا اور سب سے پہلے کیسز کو سمجھا کہ یہ کیسے آپریٹ کر رہے ہیں، کہاں سے فون کر رہے ہیں، کن علاقوں سے افراد کو اغوا کیا جاتا ہے، کیسے بندے کو ٹرانسپورٹ کرتے ہیں اور تاوان کے لیے فون کہاں سے آتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
مظہر نواز شیخ کا کہنا تھا کہ کچے کے موبائل ٹاورز کی ٹریفک کو جانچا گیا، کال ڈیٹا ریکارڈ نکلوا کر سمجھا گیا اور پھر پولیس نے عوامی آگاہی مہم بھی چلائی، شہروں میں ہورڈنگز لگوائے گئے اور پھر پولیس موبائل ٹاورز پر کالرز کو مانیٹر کرتی رہی۔ صرف 2022 میں 370 سے زائد افراد کو اغوا ہونے سے بچایا گیا ہے جنہیں پولیس نے فون کر کے بتایا کہ آپ جس سے بات کر رہے ہو وہ ڈاکو ہیں اور خاتون کی آواز کا جھانسہ دے کر بات کر رہے ہیں۔
مظہر نواز شیخ کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے اب لاڑکانہ اور سکھر رینج کو بہتر وسائل اور جدید اسلحہ سمیت مزید بہتر اے پی سیز اور وائرلیس کمیونیکیشن سسٹم فراہم کر دیا ہے جب کہ پولیس کی تربیت پر بھی خاص توجہ دی جارہی ہے۔ پولیس نے ان ڈاکوؤں کی نقل و حمل کو روکنے کے لیے اب کچے کے علاقوں میں پولیس پوسٹس بنا دی ہیں۔
پولیس نے گزشتہ ایک سال کے دوران 62 ملزمان کو مقابلے میں ہلاک اور 200 سے زائد کو زخمی حالت میں گرفتار کیا ہے لیکن مزید کچے کے اندر جا کر ڈاکوؤں سے آمنے سامنے مقابلہ کرنے کے لیے مزید وسائل کی ضرورت ہے۔ ان وسائل میں پکی سڑکیں اور پل شامل ہیں۔ پہلی بار پنجاب پولیس سے بھی بارڈر میٹنگز ہوئی ہیں اور مشترکہ حکمت عملی پر کام کیا جارہا ہے کہ اس اغوا برائے تاوان کو جڑ سے ختم کیا جائے۔
ڈی آئی جی لاڑکانہ کا کہنا تھا کہ ڈاکو مختلف وائس اوور سافٹ ویئرز کا استمال کرنے سمیت اپنے بچوں کو بھی فون کال پر بات کرواتے ہیں۔ سکھر رینج سے سامنے آنے والے چند کیسز میں تو خواتین براہ راست بھی افراد کو اغوا کروانے میں شامل پائی گئیں ہیں اور سکھر پولیس نے چند خواتین کو گرفتار بھی کیا ہے۔
مظہر نواز شیخ کا کہنا تھا کہ ڈاکو کے اس ’ہنی ٹریپ‘ کے چنگل میں پاکستان کے تمام صوبوں اور بڑے شہروں کے لوگ پھنسے اور اغوا ہوئے حتہ کے رینجرز، ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نچلی سطح کے اہلکار بھی اغوا ہوچکے ہیں۔ تاہم لاڑکانہ رینج میں کافی حد تک اس صورتحال پر قابو پا لیا گیا ہے۔
دوسری جانب لاڑکانہ ڈویژن کے ضلع قمبر شھدادکوٹ کی تحصیل وارہ کے گاؤں پیر علی اصحابو سے دو نوجوان، عزیر تنیو اور بشیر چانڈیو، اغوا ہو کر ڈاکوؤں کے چنگل میں پھنس چکے ہیں اور حیران کن طور پر دونوں نوجوانوں کا تعلق ایک ہی گاؤں سے ہے جب کہ دونوں اغوا چند روز کے فاصلے سے ہوئے۔
انڈیپینڈنٹ اردو نے گاؤں پیر علی اصحابو پہنچ کر مغوی بچوں کے والدین سے ملاقات کرکے تفصیلات جاننے کی کوشش کیں ۔
مغوی بشیر کے والد وزیر علی چانڈیو نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ پیشے سے ایک انتہائی غریب کسان ہیں اور ان کا بیٹا بشیر گزشتہ 6 ماہ سے لاڑکانہ میں ایک دوکان پر 8 ہزار روپے ماہانہ کی اجرت پر ملازمت کر رہا تھا۔
3 جولائی کی صبح ان کے بیٹے نے دکاندار سے کہا کہ عید الضحی قریب ہے، گھر خرچ دینا ہے، تنخوا دے دیں۔ دکاندار سے تنخواہ لے کر چند عزیزوں کو گاؤں جانے کا بتا کر شہر سے دن کے اوقات میں نکلا تو رات 11 بجے کے قریب بیٹے کا اپنے نمبر سے فون آیا کہ مجھے اغوا کر لیا گیا ہے۔ پھر ڈاکوؤں نے دو روز بعد فون کیا اور ڈیڑھ کروڑ روپے تاوان مانگا۔ اب 40 لاکھ مانگ رہے ہیں۔
وزیر علی چانڈیو کا کہنا تھا کہ میں بھی مزدور ہوں، میرا بیٹا بھی مزدور ہے۔ ’ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں، میں اپنا بیٹا اللہ اور قرآن مجید کے حوالے کر چکا ہوں۔ اگر احساس کر کے لوٹا دیں تو ڈاکوؤں کی مہربانی۔‘
وگن شہر کے صحافی نادر مغیری نے بتایا کہ شہر کی مختلف سماجی تنظیموں سے وزیر علی چانڈیو کی مدد کرنے کے لیے تاوان کی رقم اکٹھی کرنے کے لیے چندہ بھی اکٹھا کیا لیکن ابھی تک صرف 30 سے 40 ہزار اکٹھے ہو سکے ہیں۔
وزیر چانڈیو کا کہنا تھا کہ یہ عین ممکن ہے کہ میرے بیٹے نے فون پر کسی سے باتیں کی ہوں اور انکے جھانسے میں آ گیا ہو۔
’آئے روز ڈاکو بشیر کو زنجیروں میں جکڑا، اسلحہ تانے تشدد کا نشانہ بناتے ویڈیو بھیجتے ہیں جسے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔‘ انکا کہنا تھا کہ وہ پولیس اور معززین سب کے دروازے پر دستک دے چکے ہیں کوئی انکی مدد نہیں کر رہا اور وہ بے حد پریشان ہیں۔
انڈیپینڈنٹ اردو نے پیر علی اصحابو گاؤں کے دوسرے مغوی نوجوان عزیر علی تنیو کے والد غلام مصطفے تنیو سے بھی گفتگو کی۔ غلام مصطفے تنیو کا کہنا تھا کہ انکے بیٹے کو بھی فون پر جھانسہ دے کر بلایا گیا۔
9 جولائی کی صبح انکا بیٹا قریبی شہر وگن سے کپڑے اٹھانے کا کہہ کر گھر سے نکلا تو پھر واپس نہیں آیا۔ تاہم ان کے بیٹے کو مبینہ طور پر ایک جاننے والے نے کوئی لالچ دے کر بلایا اور پھر چار مسلح افراد اسے گاڑی میں بیٹھا کر لے گئے اور لاڑکانہ کے بعد ان کے فون نمبرز بند ہو گئے۔
انکا کہنا تھا کہ ان سے بھی 80 لاکھ روپے تاوان مانگا جارہا ہے جو کہ ادا کرنے کی انکی سکت نہیں۔
غلام مصطفے تنیو کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایس ایس پی قمبر شھدادکوٹ بشیر بروہی اور ڈی آئی جی لاڑکانہ سے ملاقاتیں بھی کی ہیں لیکن پولیس کسی طرح کا کوئی تعاون نہیں کر رہی ۔
دوسری جانب قمبر شھدادکوٹ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ عزیر علی تنیو اور بشیر چانڈیو دونوں نوجوان فون پر ہنی ٹریپ کا شکار ہوئے ہیں۔ پولیس نے دو ملزمان کو زیر حراست بھی لیا ہے اور تحقیقات جاری ہیں ۔
دونوں جوانوں کو اغوا ہوئے ایک ماہ کے قریب ہوچکا ہے لیکن کوئی ایف آئی آر متعلقہ تھانہ میں درج نہیں کی گئی۔