صبح کے ساڑھے پانچ بجے ہیں، روائتی طور پر گرم موسم والے شہر کا موسم خوشگوار ہے، صبح کی تازہ ہوا قدرے ٹھنڈی ہے، شہر کے تاریخی باغ کا مرکزی دروازہ کھلا ہوا ہے اور باغ کے مختلف حصے کرونا وبا کی پابندیوں کے باعث بند ہیں، مگر اس کے باوجود سپورٹس کے کپڑے اور جوگرز پہنے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ باغ میں آنا شروع ہوگئے ہیں۔
کچھ لوگوں نے چہل قدمی شروع کی تو کچھ لوگ دوڑ لگا رہے ہیں، جبکہ نوجوان مختلف جسمانی کھیل کھیلنے میں مصروف ہوگئے۔
یہ مناظر سندھ کے تاریخی شہر لاڑکانہ کے رائل روڈ پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے منسوب جناح باغ کے ہیں۔
کچھ دیر بعد ایک درجن کے قریب لوگوں کا ایک گروپ جناح باغ کے مختلف حصے بند ہونے کے باعث باغ کے پیچھے ریلوے لائن کراس کرکے ایک چھوٹے سے پارک مولانا جان محمد عباسی پارک پہنچتا ہے، جہاں یہ لوگ پلاسٹک کی شیٹیں بچھا کر ان پر فوم کا گدا رکھ کر یوگا شروع کرتے ہیں۔
چند لمحے بعد ہاتھوں کی ہتھیلیوں اور ٹخنوں پر بیٹھ کر یوگا کرتے گروپ کے لوگ اپنی زبان باہر نکال کر زور زور سے آوازیں نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔
اس گروپ کی رہنمائی کرنے والے یوگا انسٹرکٹر امتیاز علی کھوکھر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ان عجیب آوازوں والے یوگا کے متعلق بتایا: ’ہم عام طور پر اتنی سانس لیتے ہیں جس سے زندہ رہا جاسکے مگر صحت کے لیے اتنی سانس ناکافی ہے۔‘
’اس لیے ہم یوگا کے دوران پورا زور لگا کر اتنی سانس لیتے ہیں جس سے پھیپھڑے مکمل طور پر بھر جاتے ہیں اور اس طرح جسم میں ایک نئی قوت آجاتی ہے۔‘
لاڑکانہ شہر کے رہائشی امتیاز علی کھوکھر 1985 سے مختلف کھیلوں میں سرگرم رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق: ’لاڑکانہ شہر میں یوگا کوئی نئی بات نہیں ہے، لاڑکانہ میں 1990 کی دہائی میں یوگا ہوتا تھا۔ جو کچھ عرصے کے لیے بند ہوگیا تھا۔ بعد میں ہم نے 2014 سے یوگا دوبارہ سے شروع کیا تو بہت سے لوگوں نے دلچسپی دکھائی اور اب درجنوں لوگ روزانہ یوگا کرنے آتے ہیں۔‘
امتیاز علی کھوکھر اور ان کے چند دوستوں نے 2014 میں یوگا شروع کرنے کے بعد لاہور کے ایک یوگا کلب میں شمولیت کی۔ 2008 میں پروفیسر وقاص محمود نے ماڈل ٹاؤں پارک لاہور سے ’دی ونڈرفل کلب‘ کا آغاز کرکے نوجوانوں کو یوگا کی طرف راغب کیا۔ آج اس کلب کی کئی شہروں میں شاخیں ہیں۔
امتیاز علی کھوکھر اور ان کے دوست ’دی ونڈرفل کلب‘ کی لاڑکانہ برانچ چلاتے ہیں۔
’جب ہم نے شروع کیا تو لوگوں کو عجیب لگا مگر جب ہم نے ان سے کہا کہ آپ کچھ یوگا کرکے دیکھیں اگر آپ کو اپنی صحت میں فرق نظر آئے تو پھر جاری رکھیں، آج ہمارے کلب کی جانب سے سندھ کے کئی شہروں بشمول رتودیرو، نئوں دیرو، خیرپور میرس، قمبر، شہدادپور، حیدرآباد، سکھر، وارھ سمیت کئی شہروں میں شاخیں ہیں اور وہاں ہزاروں لوگ روزانہ یوگا کرتے ہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے اس کلب کی کوئی فیس نہیں ہے بلکہ وہ لوگوں کو مفت میں یوگا سکھاتے ہیں۔
امتیاز علی کھوکھر کے بتاتے ہیں: ’یوگا ہزاروں سال پرانہ عمل ہے، جس کے کرنے سے کئی بیماریوں سے شفا ملتی ہے۔ ہم اپنی جائیداد اور ملکیت کو تو سنبھالتے ہیں، مگر چھ فٹ کے جسم کا خیال رکھنے کے لیے جسم کو ڈاکٹروں کے حولے کرتے ہیں۔ صحت مند رہنے کے لیے ہر فرد کو یوگا کرنا چاہیے۔‘