پاکستان میں کچھ عرصے سے بار بار انٹرنیٹ کی بندش سے ایک طرف تو سوشل میڈیا صارفین غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہو رہے ہیں تو دوسری طرف اربوں روپے کا وہ کاروبار بھی متاثر ہو رہا ہے جو آن لائن کیا جا رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق انٹرنیٹ اب انسانی زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے۔ اس کی بار بار بندش سے ذہنی کوفت اپنی جگہ، لیکن اربوں روپے کے کاروبار بھی متاثر ہوتے ہیں اور عالمی سطح پر آن لائن کام کرنے والی کمپنیوں کی ساکھ بھی خراب ہو رہی ہے۔
فائبر آپٹکس میں خرابی سے ملک بھر میں انٹرنیٹ متاثر ہونا معمول بنتا جا رہا ہے جبکہ اس کا بیک اپ انتظام نہ ہونے سے معاملہ حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
بینکوں کا بیشتر نظام اب ڈیجیٹل ہونے سے رقوم کی ادائیگیوں کا مسئلہ اور آن لائن تعلیم حاصل کرنے میں بھی دشواری پیش آتی ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے مطابق انٹرنیٹ کی تسلسل سے فراہمی کو یقینی بنانے کے اقدامات موجود ہیں۔ البتہ بارشوں اور حالیہ سیلاب کے باعث فائبر آپٹکس میں خرابی سے گذشتہ ہفتے انٹرنیٹ کی لائنوں میں مسائل ضرور پیدا ہوئے مگر یہ خرابی گھنٹوں میں دور کر کے انٹرنیٹ بحال کر دیا گیا۔
انٹرنیٹ بند ہونے سے کیا مشکلات ہوتی ہیں؟
لاہور میں ڈیجیٹل آن لائن مارکیٹنگ کمپنی کے مالک اعجاز عاصی کہتے ہیں کہ اب عالمی سطح پر اربوں روپوں کا کاروبار آن لائن ہو رہا ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ ’حکومت اس معاملے کو اتنا سنجیدہ نہیں لیتی جتنا لینا چاہیے‘۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اعجاز عاصی کا کہنا تھا کہ ’اب انٹرنیٹ زندگی میں پانی کی طرح لازمی ہو چکا ہے، سوشل میڈیا ہی نہیں بلکہ بڑی بڑی کمپنیاں بھی آن لائن نظام پر منتقل ہو چکی ہیں۔‘
ان کے بقول گذشتہ ہفتے دو بار کئی کئی گھنٹے انٹرنیٹ بند رہا جس سے آن لائن ادائیگیاں پھنس گئیں۔
’اس سے دو طرح کے نقصانات ہو رہے ہیں۔ ایک تو جاری کام متاثر ہوتا ہے، پروجیکٹ خراب ہوتے ہیں اور دوسرا یہ کہ عالمی سطح پر پروجیکٹس مقررہ وقت پر مکمل نہ ہونے سے ساکھ خراب ہوتی ہے۔‘
پاکستان میں آن لائن ٹرانسپورٹ اوبر اور کریم سے منسلک افراد بھی انٹرنیٹ کی بندش سے پریشان ہیں۔
کریم نامی بین الاقوامی کمپنی میں کام کرنے والے افضال احمد کا کہنا ہے کہ ’انٹرنیٹ بند ہونے سے ہزاروں لوگ جو سفر میں ہوتے ہیں، ان کے کرایوں کی رقم کا اندازہ نہیں ہوتا۔‘
ان کے مطابق: ’ایک جگہ سے سواری لے جائیں تو دوبارہ سواری نہ ملنے پر خالی واپس آنا پڑتا ہے اور کرائے کی ادائیگیوں کے باوجود مسافروں کے پیسے آن لائن جمع نہیں ہوتے۔ دوبارہ اکاؤنٹ میں جمع ہونے پر شکایات موصول ہوتی ہیں جس پر ہمیں رقم واپس کرنا پڑتی ہے۔‘
اسی طرح گھر پیٹھے کھانا منگوانے کے لیے استعمال کی جانے والی ایپ فوڈ پانڈا سے منسلک محمد شکیل کہتے ہیں کہ ’آن لائن ملنے والے آرڈرز تاخیر کے باعث کینسل ہو جاتے ہیں اور کمپنی کی بدنامی ہوتی ہے۔
’بہت کم لوگ ہیں جو اس طرح کے ٹیکنیکل مسائل سمجھتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ آن لائن ادائیگی کے باوجود آرڈر نہیں مل پاتے اور کھانا خراب ہونے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بینکوں کا نظام آن لائن ایپلی کیشنز پر منتقل ہو چکا ہے جس کے بعد آن لائن ادائیگیوں سمیت دیگر کاموں کے لیے ان ایپس کے استعمال کے لیے انٹرنیٹ انتہائی ضروری ہو گیا ہے۔
لاہور میں نجی بینک کے ایریا مینیجر سرفراز علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بینکوں کی اندرونی نیٹ ورکنگ اور صارفین کے لیے ڈیجیٹل نظام انٹرنیٹ پر چلتا ہے لہٰذا بینکوں نے برانچوں میں ذاتی طور پر آنے کی سہولیات کم کر دی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سرفراز علی کے مطابق انٹرنیٹ بند ہونے پر دفتری اوقات میں برانچوں میں رش لگ جاتا ہے۔ اندرونی نظام متاثر ہونے سے وہاں بھی کئی کام نہیں ہو سکتے۔ اے ٹی ایم مشنیں بھی کام نہیں کرتیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اربوں روپے کی ادائیگیاں رکنے سے لوگوں کو اور بینکوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
پی ٹی اے کا موقف
پی ٹی اے ترجمان زیب النسا اس بارے میں کہتی ہیں کہ بارشوں اور سیلاب کے باعث پی ٹی سی ایل آپٹک فائبر نیٹ ورک میں تکنیکی خرابی اور کٹ جانے کی وجہ سے چند مقامات پر متاثر ہونے والی انٹرنیٹ سروسز کو ایک گھنٹے کے اندر بحال کر دیا گیا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے زیب النسا نے کہا کہ ’اب ملک بھر میں انٹرنیٹ معمول کے مطابق کام کر رہا ہے۔‘