خیبر پختونخوا میں گرمیوں کی تعطیلات کے بعد نصابی سرگرمیاں تعطل کی شکار ہیں کیوں کہ تاحال صوبائی حکومت کی جانب سے سرکاری سکولوں کے طلبہ کو نصابی کتب فراہم نہیں کی گئیں۔
’ہم روز سکول آتے ہیں لیکن کتابیں نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں بتایا جاتا ہے کہ طلبہ کو احادیث یا کسی اور طریقے سے مصروف رکھیں۔ (گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد سکول دوبارہ کھلے) مہینہ ہو گیا لیکن ابھی تک کتابیں آئیں نہ کتابیں موصول ہونے کی کوئی تاریخ دی گئی۔‘
یہ کہنا تھا ثمینہ بیگم (فرضی نام) کا جو مالاکنڈ ڈویژن میں لڑکیوں کے سرکاری مڈل سکول میں استانی ہیں۔
ثمینہ نے بتایا کہ ’گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد سکول یکم اگست سے کھل گئے ہیں تاہم بچوں کو حکومت کی طرف سے مفت کتابیں ابھی تک فراہم نہیں کی گئیں اور نہ ہی یہ کتابیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔‘
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ہر سال نئے تعلیمی سال کے آغاز پر پرائمری سے لے کر ہائر سیکنڈری تک مفت نصابی کتابیں فراہم کی جاتی ہیں۔
رواں سال گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہوئے تقریباً ایک مہینہ ہوگیا ہے لیکن ابھی تک بچوں کو کتابیں نہیں مل پائیں جس سے تعلیمی سال متاثر ہو رہا ہے۔
ثمینہ نے بتایا: ’ہم سکول روز جاتے ہیں اور بچے بھی کتابوں کا پوچھتے ہیں لیکن ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ ہم صبح سے لے کر سکول سے چھٹی ہونے تک کسی نہ کسی طریقے سے بچوں کو مصروف رکھتے ہیں۔‘
انھوں کے بقول: ’یہ عجیب صورتحال ہے کہ ہمیں اعلیٰ حکام کی جانب سے بتایا جاتا ہے کہ بچوں کو احادیث سکھائیں یا دیگر معلومات عامہ کے سوال و جواب پوچھا کریں اور اسی طریقے سے بچوں کو مصروف رکھیں۔
’کب تک ہم ان کو مصروف رکھیں گے اور دوسری اہم بات کہ بچوں کا وقت فضول میں ضائع ہو رہا ہے۔‘
خیبر پختونخوا میں محکمہ تعلیم کے 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر کے بندوبستی اضلاع میں 27 ہزار سے زائد لڑکے اور لڑکیوں کے سرکاری سکول ہیں جس میں نرسری سے لے کر بارہویں جماعت تک 46 لاکھ سے زائد بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ نجی سکولوں میں پڑھنے والے 24 لاکھ سے زائد طلبہ اس کے علاوہ ہیں۔
ثمینہ سے جب پوچھا گیا کہ کتابیں ابھی تک کیوں نہیں دی گئیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس بارے میں مجھے کوئی علم نہیں۔ اعلیٰ حکام روز یہی کہتے ہیں کہ کچھ دن میں پہنچ جائیں گی۔‘
محکمہ تعلیم کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’کتابوں کی ترسیل میں تاخیر ہر سال ہوتی ہے تاہم اس سال مسئلہ مزید گھمبیر ہوگیا ہے کیونکہ ابھی تک چھٹی اور ساتویں جماعت کی تو تقریباً پانچ کتابیں آئی ہی نہیں ہیں۔‘
انہوں نے بتایا: ’میں جس ضلعے میں (کام) کرتا ہوں یہاں ابھی تک صرف آدھے طلبہ کو کتابیں فراہم کی گئی ہیں لیکن وہ بھی پوری نہیں ہیں کیونکہ کچھ جماعتوں کی کتابیں ابھی تک یا تو چھپی نہیں یا ضلعی محکمہ تعلیم کے دفاتر کوموصول نہیں ہوئیں۔‘
عہدیدار نے بتایا کہ ’چھٹی جماعت کی صرف عربی، انگلش اور تعلیم القران کی کتابیں موصول ہوئی ہیں جبکہ باقی کتابیں نہیں ہیں۔ اسی طرح ساتویں جماعت کی صرف چار کتابیں آئی ہیں اور باقی کتابیں ابھی تک نہیں آئیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محکمہ تعلیم کے عہدیدار کے مطابق: ’اس میں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ سکولوں کے معیار کو چیک کرنے والے خودمختار مانیٹرنگ یونٹ کی طرف سے صوبائی محکمہ تعلیم کو طلبہ کے کم اعداد و شمار دیے گئے ہیں جبکہ حقیقت میں طلبہ کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔
’ہر سال نئے طلبہ کے داخلے ہوتے ہیں لیکن انڈپینڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ نے اعداد و شمار کم دیے ہیں جس کی وجہ سے جو کتابیں ملی ہیں وہ بھی ضروری تعداد سے تقریباً آدھی ہیں۔ چونکہ یہ کتابیں اوپن مارکیٹ میں بھی نہیں ملتیں جس کی وجہ سے جو طلبہ انہیں خریدنا چاہتے ہیں، وہ بھی نہیں خرید سکتے اور طلبہ کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے۔‘
کتابیں کیوں نہیں ملی؟
خیبر پختونخوا حکومت نے وفاقی حکومت کی جانب سے ’نیشنل کریکولم‘ یعنی نئے قومی نصاب کے مطابق خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بورڈ کو نئی کتابیں چھاپنے کا آرڈر دیا تھا لیکن ٹیکسٹ بورڈ کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کو کتابیں چھاپنے کی واجب الادا رقم حکومت کی جانب سے ابھی تک فراہم نہیں کی گئی۔
ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین ارشد خان آفریدی کو جب باور کرایا گیا کہ کتابیں چھاپنے میں تاخیر کی وجہ سے بچوں کا وقت ضائع ہورہا ہے تو جواب ملا کہ ’ہم تو کہتے ہیں کہ ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی اس مسئلے کے لیے بنائی جائے تاکہ تحقیقات ہوں کہ کتابوں کی بروقت ترسیل میں تاخیر کس کی طرف سے آئی ہے۔‘
ارشد خان آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹیکسٹ بک بورڈ نے اپنے وسائل سے کتابوں کی چھپائی کا کام کیا ہے لیکن حکومت کی طرف سے ابھی تک ان کو فنڈ فراہم نہیں کیے گئے۔ صوبائی انسپیکشن ٹیم اس مسئلے کی تحقیقات کرے تاکہ پتہ چلے کہ اس معاملے میں ذمہ دار کون ہے۔‘
ضلع دیر لوئر کے ایک سرکاری سکول کے استاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے اگلی جماعت میں پروموٹ ہونے والوں سے پرانی کتابیں لے کر انہیں طلبہ میں تقسیم کر دیا اور وہی پرانی کتابیں اب ہم پڑھا رہے ہیں۔‘
ان کے بقول: ’اب چونکہ نصاب تبدیل ہوا ہے لیکن مجبوری کی وجہ سے ہم پرانی نصابی کتابیں پڑھا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ فضول بیٹھنے سے طلبہ کا وقت ضائع ہو اس سے بہتر ہے کہ بچوں کو کم از کم پرانے نصاب سے ہی کچھ نہ کچھ پڑھایا جائے۔‘
صوبایی حکومت کا موقف
صوبائی وزیر خزانہ وصحت تیمور سلیم جھگڑا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کتابوں کی چھپائی کے حوالے سے فنڈنگ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور حکومت کی جانب سے چھپائی کے لیے 95 فیصد رقم ادا کا جا چکی ہے۔
ان کے بقول: ’صوبے میں طلبہ کو 80فیصد کتابیں پہلے سے دی چا چکی ہے جبکہ باقی کتابیں 10 ستمبر تک سکولوں کو موصول ہوجائیں گے۔فنڈنگ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور حتیٰ کے پرنٹرز کو ایڈوانس ادائیگی بھی کی جا چکی ہے۔‘