خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں رواں مہینے مسلح شدت پسندوں کی موجودگی لوگوں کے لیے حیران کن تھی۔
سوات میں 2009 والی صورت حال کی ایک جھلک اس وقت سامنے آئی جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے شدت پسندوں کی جانب سے ایک فوجی افسر اور ایک زخمی پولیس اہلکار کی ویڈیو سوشل میڈیا پرجاری کی گئی۔
جب طالبان کی قید میں موجود ان سکیورٹی افسران کی ویڈیو وائرل ہوئی تو ملک میں شدید ردعمل سامنے آیا اور بعد میں سوات میں عوامی مظاہرے بھی ہوئے۔ سوات کے علاوہ دیر میں بھی تشدد کے واقعات کے بعد مظاہرے ہوئے۔ عوامی ردعمل، ٹی وی چینلوں اورسوشل میڈیا پر بحث کے بعد پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) اور ٹی ٹی پی کو بھی اپنا اپنا موقف بیان کرنا پڑا۔
فوج اور ٹی ٹی پی نے حالات سے متعلق کیا کہا وہ تو میڈیا میں شائع ہو چکا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سوات میں ٹی ٹی پی کے شدت پسند کیسے آئے اور اتنے طاقتور ہو گئے کہ فوج اور پولیس اہلکاروں کو قید میں ڈال کر ایک لحاظ سے اپنی طاقت کا مظاہرہ بھی کیا؟
پاکستان میں شدت پسندی کے حوالے سے عمومی طور پر پائے جانے والی شکوک و شبہات کی وجہ سے یہ بھی کہا گیا کہ شدت پسندوں کو شاید ٹی ٹی پی اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان کابل میں ہونے والے امن مذاکرات میں مفاہمت کے تحت لایا گیا ہو گا تاکہ عوامی ردعمل کا جائزہ لیا جا سکے۔
لیکن یہ تاثر اس لیے درست نہیں ہے کیونکہ مذاکرات اب تک اس مرحلے تک نہیں پہنچے کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کا افغانستان سے واپسی سے متعلق کوئی فیصلہ ہوا ہو۔
ویسے ٹی ٹی پی کے رہنماؤں اور جنگجوؤں کی واپسی کابل میں ہونے والے مذاکرات کا ایک اہم موضوع ہے لیکن واپسی کے طریقہ کار پر کسی حد تک اختلافات ہیں، جنہیں دور کرنے کے لیے مشورے ہو رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ کابل میں مذاکرات کے کئی ادوار میں حصہ لینے والے پشتون مشترکہ جرگے کے رابطہ کار بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا ہے کہ بات چیت میں تحریک طالبان پاکستان کے نام پر مشاورت ہو رہی ہے کہ وہ کون سا نام استعمال کریں گے، ان کی شکل کیا ہو گی اور وہ واپسی کے بعد کس طریقے سے کام کریں گے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے سوات میں طالبان کی موجودگی سے متعلق کہا گیا کہ بظاہر یہ افراد افغانستان سے اپنے آبائی علاقوں میں واپس آئے تھے۔ آئی ایس پی آر نے مزید کہا تھا کہ عسکریت پسندوں کی کسی بھی جگہ موجودگی برداشت نہیں کی جائے گی۔
بعد میں مقامی لوگوں نے تصدیق کی تھی کہ عسکریت پسند سوات سے چلے گئے تھے۔ آنے والے شدت پسندوں کے بارے میں مقامی لوگوں کا خیال تھا کہ وہ افغانستان سے دیر کے راستے داخل ہونے کے بعد سوات کے پہاڑی علاقوں میں آئے تھے لیکن اس سوال کا جواب ابھی تک شاید کسی نے نہیں دیا کہ یہ ممکن کیسے ہوا کہ عسکریت پسند اپنا اسلحہ بھی ساتھ لے آئے۔
13 اگست کو ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے سوات اور دیگر علاقوں میں شدت پسندوں کی موجودگی سے متعلق اپنا موقف ایک بیان میں جاری کیا۔ خراسانی کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے لوگوں نے کبھی بھی اپنے علاقوں سے مکمل انخلا نہیں کیا بلکہ ہمیشہ سے وزیرستان سے لے کر سوات تک کسی نہ کسی شکل میں اپنا مسلح وجود برقرار رکھا ہے۔
انہوں نے خیبرپختونخوا اور خاص کر سوات میں طالبان کی آمد اور اس حوالے سے جاری ہونے والی ویڈیوز کو جعلی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ویڈیو کو ہوا دے کر عوام میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی گئی تھی اور یہ کہ ان کے لوگ ’دس بارہ سال سے سوات میں تشکیل کے طور پر موجود ہیں۔‘
سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ شدت پسند جب اپنے علاقوں میں واپس آتے ہیں تو ان کی ’ری ایڈجسٹمنٹ‘ کیسے ہوگی؟ خواہ وہ سماجی، معاشی یا سیاسی ہو اور ان معاملات کی قانونی حیثیت کیسے ہوگی؟
خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر سیف کا مزید کہنا تھا: ’ہمارے مذاکرات میں دو اہم نکات میں ٹی ٹی پی کے لوگوں کی ’ری انٹیگریشن‘ یا دوبارہ بحالی کا عمل بھی شامل ہے اور واپسی کی جو ممکنہ شکلیں ہیں ان کی بات چیت ہو رہی ہے۔ یہی ہمارا مینڈیٹ ہے۔
’ہم احسن طریقے سے ان کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں اور مذاکرات میں کوئی ڈیڈلاک نہیں ہے۔‘
جولائی کے آخری ہفتے میں کابل میں ہونے والے جرگے اور ٹی ٹی پی کے مذاکرات کے بعد اب وہاں زیر بحث آنے والے معاملات پر پاکستان میں مشورے ہو رہے ہیں کہ مذاکراتی عمل میں پیش رفت کیسے ہو۔ مذاکرات کرنے والے سکیورٹی اہلکاروں اور پشتون جرگے کو قبائلی اضلاع اور سوات سمیت مالاکنڈ کے مشران، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو کسی بھی ممکنہ معاہدے سے پہلے اعتماد میں لینا ہو گا۔
ریاستی اداروں اور ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں شامل کرداروں کو اس حساس معاملے پر ان لوگوں کو بالکل بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، جو دہشت گردی، فوجی آپریشنوں اور شدت پسندی سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔
ٹی ٹی پی کی پالیسی، شرائط، مطالبات اور توقعات کوئی بھی ہوں لیکن اس گروپ کی قیادت کو بھی لوگوں کے احساسات اور جذبات کا احترام کرنا ہو گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 20 سال کی جنگ میں ٹی ٹی پی کا بھی جانی نقصان ہوا ہے اور ان کو فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے مسلح رہنا ہے یا قومی دھارے میں آکر کسی اور طریقے سے کام کرنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹی ٹی پی کو سمجھنا ہو گا کہ پاکستانی معاشرے میں شدت پسندی کی حمایت بالکل بھی نہیں ہے۔ اگرچہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے لیے ماضی کی طرح سکیورٹی چیلنجز باقی نہیں رہے لیکن اگر یہ گروپ اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرتا تو یہ صورتِ حال شاید افغانستان میں طالبان حکومت کے لیے بھی مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔
افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے جولائی میں مجھے کابل میں ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ افغانستان میں 20 سال کی جنگ کے خاتمے کے بعد اسلامی امارت حکومت کی خواہش ہے کہ پاکستان میں بھی تشدد کا خاتمہ ہو اور یہی وجہ ہے کہ ان کی حکومت ٹی ٹی پی اور پاکستان کے درمیان مذاکرات میں سہولت کاری اور ثالثی کا کردار ادا کر رہی ہے۔
مسئلہ پاکستان کا اندرونی ہے اور جتنا جلد ہو سکے اس کا حل نکالنا ہو گا کیونکہ افغانستان میں طالبان حکومت کی اپنی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ان کی توجہ زیادہ اپنے معاملات پر ہو گی۔
کابل کے ایک مکان پر امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کے مارے جانے کے بعد طالبان حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور کسی حد تک پاکستان کے ساتھ بداعتمادی پیدا ہوئی ہے۔
افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں گذشتہ ہفتے طالبان اہلکاروں اور علما کی ایک بڑی کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا: ’ایک پڑوسی ملک امریکی ڈرون طیارے کو کابل میں حملے کے لیے اپنی فضائی حدود دے کر جرم میں برابر کا شریک ہوا ہے، جس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔‘
طالبان کے بیان میں کسی ملک کا نام نہیں لیا گیا لیکن لوگ سمجھتے ہیں کہ پڑوسی ملک سے افغان طالبان کا اشارہ کس طرف ہے۔ اگست کے پہلے ہفتے میں کابل میں ایک افغان طالبان رہنما نے مجھے ملاقات میں بتایا کہ ٹی ٹی پی کے مذاکرت میں اسلامی امارت کے کردار پر کئی افغان طالبان خوش نہیں ہیں، کیونکہ ایک تو اب باضابطہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے رہنما افغانستان میں موجود ہیں اور اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو اسلامی امارت پر بھی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔