پاکستانی علما ٹی ٹی پی کو موقف میں نرمی پر ’قائل نہ کرسکے‘

ٹی ٹی پی نے مفتی محمد تقی عثمانی کی قیادت میں پاکستانی علما کے وفد کے ساتھ کابل میں ملاقات کے بعد ایک بیان میں اپنا موقف دہرایا کہ اسے قبائلی اضلاع کا انضمام کسی صورت قبول نہیں۔

مفتی محمد تقی عثمانی کی قیادت میں پاکستانی علما کے وفد کی کابل روانگی کے وقت اسلام آباد ائرپورٹ پر ایک تصویر (تصویر:  افغان طالبان)

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے مفتی محمد تقی عثمانی کی قیادت میں پاکستانی علما کے وفد کے ساتھ بدھ کو کابل میں ہونے والے ’مذاکرات‘ کے بعد ایک مفصل بیان میں اپنا موقف دہرایا ہے کہ اسے قبائلی اضلاع کا انضمام کسی صورت قبول نہیں۔

اس سے پہلے بھی ٹی ٹی پی مختلف پاکستانی وفود کے ساتھ ملاقات میں اسی مطالبے پر ڈٹی رہی کہ وہ قبائلی اضلاع کی آزاد حیثیت کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے میڈیا کو جاری بیان میں کہا گیا کہ ’ہم اپنے اساتذہ اور علما کرام کو خوش آمدید کہتے ہیں، جنہوں نے قیمتی وقت سے کچھ حصہ نکال کر یہاں (کابل) آنے کی زحمت کی۔‘

بیان میں کہا گیا کہ پشتونوں اور باالخصوص قبائلی اضلاع کے لوگوں کو آزادی تقسیم ہند کے نتیجے میں نہیں ملی بلکہ پشتونوں نے اپنی آزادی ’مقدس جہاد‘ کے ذریعے برقرار رکھی ہے۔

بیان میں کہا گیا: ’گیارہ ستمبر (2001) کے بعد جب عالمی کفر اور اس کے غلاموں نے امریکی قیادت میں امارت اسلامی پر حملہ کیا تو قبائل کی آزاد حیثیت تھی جس نے مجاہدین اور مہاجرین کو پناہ گاہ فراہم کی اور قبائل سے جہاد منظم ہوا، جس کےنتیجے میں امریکہ کو شکست ہوئی۔‘

قبائلی اضلاع کے ضم ہونے کے بارے میں ٹی ٹی پی نے بیان میں لکھا ہے کہ ’عالمی کفر اور اس کے مقامی ایجنٹوں‘ نے آزاد حیثیت ختم کر کے اس کو ’غلام اور غیر اسلامی جمہوری نظام‘ میں ضم کر دیا ہے۔

ٹی ٹی پی نے اپنے بیان میں ایک فتوے کا بھی ذکر کیا ہے اور لکھا گیا ہے کہ جب افغانستان پر نیٹو افواج نے حملہ کیا تو علما کے فتوے کے بعد افغان طالبان کی طرف سے آئے ہوئے ’مہاجرین‘ کو پناہ دی اور اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے افغانستان میں امارت اسلامیہ کی مدد بھی کی۔

ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا یہ دور رواں سال مئی میں شروع ہوا ہے جب قبائلی اضلاع اور ملاکنڈ ڈویژن سے ایک جرگہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے لیے کابل گیا تھا۔

مذاکرات کے بارے میں پاکستانی طالبان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان اس مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں اور دونوں فریقین کو نرمی کی درخواست کی تھی۔

مذاکرات کے رواں دور کے بارے میں ٹی ٹی پی نے بیان میں بتایا تھا کہ ان مذاکرات میں پاکستان حکومت کی جانب سے نمائندگی پشاور کے کور کمانڈر جنرل فیض حمید کر رہے ہیں جبکہ ٹی ٹی پی کی جانب سے ان کے امیر مفتی نور ولی کر رہے ہیں۔

تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

سویڈن میں مقیم شدت پسند تنظیموں پر تحقیق کرنے والے عبدالسید نے پاکستانی علما کی ٹی ٹی پی سے ملاقات کے بارے میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس ملاقات کے کوئی خاطر خواہ نتائج مرتب نہیں ہو سکتے۔

’میرے نزدیک یہ ایک رسمی خانہ پری کے سوا کچھ نہیں ہے اور اس کا مذاکرات کے فریقین پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ ان کی کابل میں ملاقاتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی طرف سے اس سلسلے میں ٹی ٹی پی پر اثرانداز ہونے کا کوئی امکان یا اثر نظر نہیں آتا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ ملاقاتیں شاید ان علما کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوں جو ٹی ٹی پی  کے ساتھ غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کریں۔ 

سید کے مطابق ان نامور علما کا اس مذاکرات کے سلسلہ میں کابل جانے سے حکومت کے لیے ایک اہم  فائدہ یہ ہوسکتا ہے کہ ان کے جانے سے ملک کے مذہبی طبقے میں ان مذاکرات کے لیے قبولیت پیدا ہوگی۔

’علما کی یہ ملاقات پاکستان میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کا سبب بن سکتی ہے کیونکہ ملک کے اندر حکومت کو پاکستانی عوام  کی اس تنقید کا سامنا ہے کہ ٹی ٹی پی کےارکان  کو کیسے معافی مل سکتی ہے جو ہزاروں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں اور عوام کے قتل میں ملوث ہیں۔‘

رفعت اللہ اورکزئی گذشتہ دو دہائیوں سے شدت پسند تنظیموں کے حوالے سے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ٹی ٹی پی کے بیان میں جس فتوے کا ذکر کیا گیا ہے جس کے تحت انہوں نے پاکستان میں کارروائیاں شروع کی تھیں، وہ منظر عام پر موجود نہیں ہے اور وہ 2007 سے اس فتوے کا ذکر کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ٹی ٹی پی سے ماضی میں اس فتوے کے بارے میں پوچھا بھی ہے کہ ان کے ساتھ اسے شیئر کیا جائے لیکن آج تک یہ سامنے نہیں آیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستانی علما کے وفد کے ملاقات کے بارے میں رفعت نے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ ان میں زیادہ تر طالبان کے اساتذہ ہیں تاہم ٹی ٹی پی نے ماضی میں انہیں علما سے گلے شکوے بھی کیے ہے کیونکہ یہ علما مسلح کارروائیوں کو غیرشرعی سمجھتے ہیں۔

رفعت نے بتایا کہ اس وفد میں کچھ علما ایسے بھی ہیں جن کے 2018 میں پیغامِ پاکستان نامی علما کے ایک اعلامیے پر دستخط بھی موجود ہے جس میں خودکش حملوں، دھماکوں، اور دیگر مسلح کارروائیوں کو پاکستان میں حرام قرار دیا تھا۔

انہوں نے بتایا: ’مجھے نہیں لگتا ان علما کا ٹی ٹی پی پر کوئی اثر پڑے گا یا ٹی ٹی پی سے کوئی مطالبات منوائیں گے لیکن اعتماد کی فضا قائم کرنے میں یہ ملاقات مفید ثابت ہو سکتی ہے۔‘

ٹی ٹی پی کی جانب سے قبائلی اضلاع کے انضمام کے مطالبے کے بارے میں جب پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انضم اب واپس ہونا میرے نزدیک ممکن نہیں ہے۔ ’ایک تو پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی اس مطالبے کو نہیں مانیں گی جبکہ دوسری جانب پارلیمنٹ سے ترمیم دو تہائی اکثریت سے پاس کروانا پڑے گی اور یہ موجودہ سیاسی صورت حال میں تو بالکل ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔‘

رفعت نے بتایا: ’ان سب باتوں کے باوجود مذاکرات کا یہ دور اس لیے اہم ہے کہ اس میں افغان طالبان ثالث ہیں اور اگر ٹی ٹی پی مذاکرات کی ناکامی کے بعد پاکستان میں کارروائیاں کرے گی تو پاکستان کے افغان طالبان کی حکومت سے تعلقات خراب ہوں گے کیونکہ پاکستان نے بارہا افغان طالبان کو بتایا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔‘

ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے بارے میں گذشتہ ماہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا ایک اجلاس بھی ہوا تھا اور اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کی مذاکرات آئین کے دائرے میں ہوں گے۔

مفتی تقی عثمانی قیادت میں پاکستانی علما کے وفد نے اب تک ٹی ٹی پی کے ساتھ ملاقات کی تصدیق اور نہ اس حوالے سے بیان جاری کیا ہے۔

اس حوالے سے افغان طالبان کے ترجمان بلال کریمی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے اس بارے میں کوئی موقف نہیں دیا۔

تاہم صدر پاکستان عارف علوی نے اپنی ایک ٹویٹ میں صرف اتنا کہا ہے کہ کابل میں موجود مفتی تقی عثمانی سے ٹیلیفونک رابطے پر عارف علوی نے بتایا کہ پاکستانی حکومت افغان طلبہ کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور ورچوئل یونیورسٹی کے ذریعے تعلیم کی پیشکش کی ہے۔

افغان وفد شمالی وزیرستان میں

ادھر افغانستان کی اعلیٰ حکومتی شخصیات اور تاجروں پر مشتمل ایک وفد نے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کا دورہ کیا ہے۔

افغان وفد میں سرحدی و قبائلی امور کے وزیر مولانا کلیم الرحمن اور وزارتِ دفاع کے مولوی اختر محمد اکرم، سابق وزیر خارجہ، کسٹم حکام کے ساتھ ساتھ درآمدات اور برآمدات سے وابستہ اہم افغان تاجر شخصیات بھی وفد میں شامل تھیں جبکہ پاکستان کی جانب سے جی او سی سیون ڈویژن میجر جنرل نعیم اختر، کمانڈنٹ ٹوچی سکاؤٹس، کسٹم حکام، تاجر برادری اور مشران شامل تھے۔

ملاقات میں دوطرفہ تجارت کے فروغ، سرحدی امور اور دیگر اہم معاملات پر عسکری حکام سے بات چیت کی گئی۔ اس موقع پر پاکستانی حکام کی جانب سے بارڈر معاملات، افغان مریضوں کو حاصل سہولیات دوطرفہ تجارت کے فروغ اور افغان ٹرانسپورٹرز کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر بھی بریفنگ دی گئی۔

پاکستانی کی جانب سے تحفظات

اس ملاقات کے دوران پاکستانی حکام نے افغان حکام کو مختلف امور پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ پاکستانی حکام نے بتایا کہ تذکیرہ پر سفر کرنے والے مریضوں کی تصدیق سمیت مستقبل میں اس سہولت کو پاسپورٹ میں بدل دیا جائے، علاج معالجے کے لیے پاکستان آئے سینکڑوں افغان مریض تاحال واپس نہیں لوٹے، پاکستان آئے ہوئے افغان ٹرک ڈرائیوروں کے ساتھ تمام اسناد کا ہونا لازمی ہے۔

پاکستانی حکام نے افغانستان کی جانب سے تمام تحفظات کو دور کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان