پنجاب میں نو منتخب وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت کی جانب سے درجہ چہارم میں 16 ہزار اسامیوں پر سرکاری نوکریاں حکومتی اراکین صوبائی اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز کے ذریعے دی جائیں گی۔
وزیراعلیٰ کو پیش کی گئیں سرکاری فہرستوں کے مطابق بظاہر یہی آرہا ہے کہ سیاسی طریقہ کار کے مطابق اب نوکریاں صرف پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق کے کارکنوں یا حامیوں کو ہی مل سکیں گی کیونکہ اس وقت حکومت میں یہی دو جماعتیں ہیں۔
بظاہر تو ہر حکومت پر اپنے منظور نظر لوگوں کو ہی سفارشی کلچر کے ذریعے نوازے جانے کا الزام لگتا ہے مگر تجزیہ کاروں کے مطابق اس طرح فہرستیں بنا کر اراکین میں نوکریوں کی تقسیم ’حیران کن اقدام‘ ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت پورے ملک یا صوبے میں عوام کے روزگار اور حقوق کا تحفظ کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے مگر اس طرح ’سیاسی رشوت‘ کے طور پر اپنے حامیوں کوسرکاری نوکریاں باٹنا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ اہلیت رکھنے والے نوجوانوں کی حق تلفی ہے۔
دوسری جانب پنجاب میں اتحادی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اس کوٹہ سسٹم سے امیدواروں کے حلقوں میں لوگوں کو روزگار ملے گا۔
کس ضلع میں کتنی نوکریاں تقسیم ہوں گی؟
پنجاب کے مختلف محکموں میں خالی اسامیوں کے لیے تیار کی گئی ان فہرستوں میں درجہ چہارم کی نوکریاں حکومتی اراکین اور ٹکٹ ہولڈرز میں بانٹنے کا طریقہ بھی طے کر دیا گیا ہے۔
فہرستوں کے مطابق درجہ چہارم میں فی ایم پی اے کو 80 سے لے کر 20 تک نوکریوں کا کوٹہ دیا جائے گا، تاہم ٹکٹ ہولڈرزکے لیے درجہ چہارم میں نوکریاں دینے کا کوٹہ مختلف ہوگا۔
لاہور میں حکومتی اراکین اسمبلی کو 1720 بھرتیوں کا کوٹہ دیا جائے گا۔ اٹک میں 556، راولپنڈی میں 478، چکوال میں 843، جہلم میں 196 اور گجرات کے ایم پی ایز کو 283 نوکریوں کا کوٹہ ملے گا۔
ساہیوال میں 1308، خانیوال میں 221، ملتان میں 868، لودھراں میں 341 بھرتیاں ایم پی ایز کرسکیں گے۔ ضلع وہاڑی میں 995، بہاولنگر میں 376 اور بہاولپور میں 399 نوکریاں اراکین اسمبلی دیں گے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول سرکاری فہرست کے مطابق رحیم یار خان میں 1055، مظفر گڑھ میں 355 اور لیہ میں 316 نوکریاں ایم پی ایز کے ذریعے دی جائیں گی۔
اسی طرح ڈی جی خان میں 240 اور راجن پور میں 637 آسامیوں پر نوکریاں حکومتی اراکین اسمبلی دیں گے۔ پنجاب حکومت درجہ چہارم کی خالی اسامیوں پر بھرتیاں 2022 کی پالیسی کے مطابق کرے گی جس کا اعلان جلد کیا جائے گا۔
اس سے قبل عثمان بزدار کی حکومت میں بھی پنجاب کے نوجوانوں کو ایک لاکھ نوکریاں دینے کا اعلان کیا گیا تھا مگرحکومت ختم ہونے کے باعث بھرتیوں کا عمل شروع نہیں ہوسکا تھا۔
نوکریوں کی سیاسی تقسیم اور میرٹ کی خلاف ورزی
پنجاب کے ریٹائرڈ بیورو کریٹ عبداللہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ پنجاب سول سروس امتحانات کے علاوہ چھوٹے سکیل کی نوکریوں کا قانونی طریقہ کار بھی متعلقہ محکموں کی ڈیمانڈ پر بذریعہ اشتہار ٹیسٹ اور انٹرویو ہوتا ہے۔
اس طریقے سے امیدواروں کی اہلیت جانچنے اور میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے سرکاری حکام کا پینل بھی ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے چھوٹے سکیل کی نوکریوں پر سیاسی بھرتیاں معمول کی بات بن چکی ہیں۔
عبداللہ کے بقول کئی بار محکموں کے متعلقہ افسران کو بھی ایمرجنسی طور پر محدود ملازم خود بھرتی کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔
’مگر اس طرح فہرستیں بنا کر اراکین اسمبلی یا ٹکٹ ہولڈرز کے ذریعے بڑی تعداد میں بھرتیوں سے میرٹ نظر انداز ہوتا ہے اور بھرتیوں کی شفافیت پر سوال اٹھتے ہیں۔ کئی بار یہ عمل متاثرین عدالتوں میں بھی چیلنج کرتے ہیں۔‘
ان کے خیال میں کسی بھی حکومت میں اپنے حامیوں کو اس طرح بڑی تعداد میں بھرتی کرنا حوصلہ افزا اقدام نہیں ہوسکتا۔
دوسری جانب تجزیہ کار تنزیلہ مظہر نے کہا کہ میرٹ کی پاسداری کے حوالے سے سب سے زیادہ شور تحریک انصاف مچاتی ہے مگرہر بار خلافِ ضابطہ کاموں میں پی ٹی آئی حکومت روایتی طریقوں پر عمل پیرا نظر آئی۔
’مثال کے طور پر اگر پنجاب کی ہی بات کریں تو بزدار حکومت میں پیسے لے کر تبادلوں اور تقرریوں کا الزام لگتا رہا اور کئی کاموں میں میرٹ کی خلاف ورزی کی گئی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ویسے تو سیاسی فائدے پہنچا کر پارٹی اراکین یا عہدیداروں کو نوازنا لازم بن چکا ہے مگر ’تحریک انصاف جو تبدیلی کا نعرہ لگاتی ہے ایسا کرنے سے اس نعرے کا کیا بنے گا۔‘
انہوں نے سوال کیا: ’کیا اس طرح اپنی ہی پارٹی کے لوگوں کو نوازنے سے سرکاری اداروں میں بھی ٹائیگر فورس بنائی جارہی ہے؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر کوئی اور حکومت ایسے اپنے کارکنوں کو نوازتی تو سب سے زیادہ شور پی ٹی آئی نے مچانا تھا لیکن چوہدری پرویزالٰہی اس طرح کے کاموں سے میرٹ کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔‘
تنزیلہ کے بقول: ’کسی بھی ملک یا صوبے کی حکومت تمام شہریوں کو روزگار یا سہولیات کے یکساں مواقعے فراہم کرنے کی پابند ہوتی ہے لیکن اپنے اراکین کو نوکریاں بانٹ کر لوگوں کو ان کے لیے سیاسی ڈھال بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور شہریوں کو برابر کے مواقع دینے سے محروم کیا جارہا ہے۔ اس طریقہ کار سے اداروں میں نظام مزید خراب ہوگا اور سیاسی مداخلت بڑھ جائے گی جس سے عوامی مشکلات کےساتھ اداروں کی کارکردگی پر منفی اثر پڑے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان میرٹ پر عمل کا منشور لے کر سیاسی میدان میں آئے لیکن ایسے اقدامات سے ان کا یہ نعرہ بھی بے اثر ہوجائے گا۔‘
’کوٹے سے حلقے کے لوگوں کو روزگار ملے گا‘
دوسری جانب تحریک انصاف پنجاب کی پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون زینب عمیر کہتی ہیں کہ اس کوٹہ سسٹم سے حلقے کے لوگوں کو روزگار ملے گا۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی تمام اراکین کو ایک سے چار سکیل تک 15 سے 20 نوکریوں کا کا کوٹہ دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے حلقے کے لوگوں کو روزگار دے سکیں۔
انہوں نے مزید کہا: ’تاہم جو اہم اراکین ہیں وہ زیادہ کوٹہ لینا چاہتے ہیں مگر ابھی گنجائش کے مطابق ہی دیا جارہا ہے۔‘
زینب کے بقول: ’سمری وزیراعلیٰ تک پہنچ چکی ہے اور جلد ہی منظوری کے بعد بھرتیوں کا عمل شروع ہوگا۔ بزدار حکومت میں بھی کوٹہ دیا گیا تھا۔‘
ان کے خیال میں: ’یہ غیر قانونی نہیں بلکہ میرٹ پر بھرتیوں کے لیے عوامی نمائندوں کی نگرانی ہوگی اور دوسری حکومتوں کی طرح میرٹ کی خلاف ورزی نہیں ہو سکے گی۔‘