میانمار کی فوجی حکومت ’جنتا‘ نے ینگون میں تعینات برطانیہ کی سابق سفیر اور ان کے شوہر کو حراست میں لے لیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے جمعرات کو سفارتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں 2002 سے 2006 تک بطور سفیر خدمات انجام دینے والی وکی بومین کو بروز بدھ ینگون سے گرفتار کیا گیا۔
برطانیہ کے سفارت خانے کے ترجمان نے بومین کا نام لیے بغیر کہا کہ ’میانمار میں ایک برطانوی خاتون کی گرفتاری پریشان کن ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ہم مقامی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں اور گرفتار خاتون کو قونصلر کی مدد فراہم کر رہے ہیں۔
سفارتی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ بومین کے ساتھ ان کے شوہر ہیٹین لِن، جو معروف فنکار ہیں، کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔
مقامی میڈیا نے بتایا کہ جوڑے کو ینگون کی ایک جیل میں قید کیا گیا ہے۔
بومین کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعے سے واقفیت رکھنے والے ایک اور ذرائع نے بتایا کہ برطانوی جوڑے کو امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
ملکی قانون کے مطابق اس الزام کے تحت زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید ہو سکتی ہے۔
’جنتا‘ کے ترجمان نے اس واقعے پر تبصرہ کی متعدد درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔
2021 میں فوج کی کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے بعد سے لندن اور ینگون کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں اور ’جنتا‘ نے رواں سال کے آغاز میں برطانیہ کی جانب سے ملک میں بطور احتجاج اپنے سفارتی مشن میں کمی کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوئے لندن پر کڑی تنقید کی تھی۔
سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے سے پہلے وکی بومین 1990 سے 1993 تک برما میں برطانوی مشن میں سیکنڈ سیکرٹری تھیں۔
روانی سے برمی زبان بولنے والی وکی بومین اب میانمار سینٹر فار ریسپانسبل بزنس میں ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتی ہیں۔
اس سے قبل ان کے شوہر ہیٹین لِن کو 1998 میں گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں مبینہ طور پر اس وقت کی جنتا حکومت کی مخالفت کرنے کے الزام میں قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2004 میں رہائی کے بعد انہوں نے اپنی قید کے دوران سمگل شدہ مواد سے بنائے گئے فن پاروں کی وجہ سے اس وقت کی سفیر وکی بومین کی توجہ حاصل کی اور اس جوڑے نے 2006 میں شادی کر لی۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ سے وابستہ رچرڈ ہارسی نے اے ایف پی کو بتایا ’یہ اس حکومت کا ایک اشتعال انگیز قدم ہے۔ وکی اور ہٹین بے حد قابل احترام ہیں اور انہوں نے کئی دہائیوں تک میانمار کے لیے بہت زیادہ خدمات انجام دی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وکی سابق برطانوی سفیر ہیں جس کی وجہ سے یہ معاملہ مزید سنگین بن گیا ہے۔‘
برطانوی حکومت نے گذشتہ سال فوج کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے میانمار کی فوج سے منسلک کئی کمپنیوں اور افراد پر پابندیاں عائد کی ہیں۔
جمعرات کو برطانیہ نے ان کمپنیوں پر نئی پابندیوں کا اعلان کیا جنہوں نے 2017 میں مسلمان روہنگیا اقلیت کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران فوج کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے میں مدد کی تھی۔
اقتدار پر قبضے کے بعد جنتا کے کریک ڈاؤن میں سینکڑوں غیر ملکی شہریوں کو قید میں رکھا گیا ہے۔
جاپانی فلمساز تورو کوبوٹا بھی گذشتہ ماہ ینگون میں ایک حکومت مخالف ریلی کے قریب سے حراست میں لیا گیا تھا۔
امریکی صحافی ناتھن ماؤنگ اور ڈینی فینسٹر، پولینڈ کے رابرٹ بوسیاگا اور جاپان کے یوکی کیتازومی کے بعد وہ میانمار میں حراست میں لیے جانے والے پانچویں غیر ملکی صحافی ہیں تاہم ان سب کو بعد میں رہا اور ملک بدر کر دیا گیا۔