میانمار کی مشرقی ریاست کیرن میں ایک خفیہ جنگل کیمپ میں ایک فٹنس کوچ اور دیگر شہری مسلح نسلی چھاپہ ماروں کے ساتھ مل کر اقتدار پر قابض فوجی حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے تربیت لے رہے ہیں۔
تھائی سرحد کے قریب دور دراز پہاڑیوں میں عارضی خیموں میں جمع یہ نئے بھرتی ہونے والے افراد گذشتہ سال یکم فروری کو بغاوت کرنے والی فوج سے لڑنے کی تیاری کرتے ہوئے رائفلیں لوڈ کرنے اور دیسی ساختہ بموں کے لیے ڈیٹونیٹر سیٹ کرنے کا طریقہ سیکھتے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے پہلی بار ٹریننگ کرنے والے ان نوجوانوں اور خواتین کی فوٹیج حاصل کی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ انہوں نے گوریلا جنگجو بننے کے لیے شہروں میں اپنی نوکریاں تک ترک کر دیں اور برینڈڈ ٹی شرٹس اور رنگین لباس کی جگہ فوج سے چھپنے کے لیے کیموفلاج وردیاں پہن لیں۔ یہ تصاویر اور ویڈیو ستمبر میں لی گئی تھیں۔
میانمار کی فوجی حکومت کے ترجمان نے ملک بھر میں اس باغی گروپ اور دیگر سول ڈیفنس فورسز کے بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
کچھ بھرتی ہونے والے افراد نے کہا کہ انہوں نے اس لیے ہتھیار اٹھائے کہ فوجی بغاوت کے بعد بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہرے ان نئے حکمرانوں کو روکنے میں ناکام رہے جنہوں نے مظاہرین کے خلاف بدترین اور پرتشدد کریک ڈاؤن کیا۔
ایک 34 سالہ سابق فٹنس ٹرینر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا: ’ہتھیار اٹھانا ہمارے لیے واحد انتخاب تھا۔‘
ان کی کمر پر کندہ ٹیٹو پر میانمار کی معزول جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی کا چہرہ اور ’فریڈم ٹو لیڈ‘ کے الفاظ کندہ ہیں۔
سوچی کو بغاوت کے دوران حراست میں لیا گیا تھا اور رواں ماہ ان کو ایک فوجی عدالت نے ’عوام کو اکسانے اور کرونا وائرس کی پابندیوں کی خلاف ورزی‘ کے جرم کا مرتکب ٹھہرایا تھا۔
اس فیصلے کی بین الاقوامی سطح پر بھر پور مذمت کی گئی۔ فوجی جنتا حکومت نے کہا کہ اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں اور یہ کہ عدالتی نظام غیر جانب دار ہے۔
باغیوں کو تربیت دینے والی ’کیرن نیشنل یونین‘ (کے این یو) ملک کے سب سے بڑے نسلی مسلح گروہوں میں سے ایک ہے جس نے مظاہرین کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے ہزاروں افراد کو اپنے علاقوں میں پناہ لینے کی اجازت دی۔
’کے این یو‘ نے روئٹرز کی جانب سے اس پر تبصرہ کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
اسی طرح کے سینکڑوں مزاحمتی گروپ پورے ملک میں سامنے آ رہے ہیں جس میں فوجی بغاوت کی مخالفت کرنے والا مسلح باغیوں کا ایک اتحاد بھی شامل ہے جو خود کو ’پیپلز ڈیفنس فورسز‘ کہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹریننگ لینے والے ایک سابق طالب نے کہا کہ ان کے گروپ میں 100 سے زیادہ نوجوان شہری لڑنے کی تربیت حاصل کر رہے ہیں اور نئے بھرتی ہونے والے باقاعدگی سے آتے ہیں۔
روئٹرز آزادانہ طور پر اس دعوے کی تصدیق نہیں کر سکا۔
شام کے وقت جنگجو کیمپ فائر کے گرد بیٹھے ہوئے گٹار اور وائلن بجاتے ہوئے ماضی کی زندگیوں کو یاد کرتے ہیں۔
کٹے ہوئے بالوں والے ایک سابق ٹرینر نے، جن کی کیمپ پہنچنے پر پونی ٹیل تھی، کہا کہ ’خدشہ ہے کہ ہمیں تین لاکھ فوجی قوت سے لڑنا پڑے گا لیکن جوابی جنگ ہی ہمارے پاس واحد راستہ تھا۔‘میں اپنے لوگوں کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی موت پر فخر کروں گا۔‘
نوٹ: یہ ویڈیو 17 دسمبر، 2021 کو انڈپینڈنٹ اردو کے سوشل میڈیا پر جاری کی گئی تھی۔