سیلاب سب سے زیادہ خواتین اور بچوں کو متاثر کرے گا: اردن کی شہزادی

اردن کی شہزادی سارہ زید نے اسلام آباد میں عرب نیوز کو دیے جانے والے انٹرویو میں کہا: ’پاکستان میں جاری خوف ناک سیلاب سب سے زیادہ خواتین اور لڑکیوں کو متاثر کرے گا۔

اردن کی شہزادی سارہ زید 26 اگست 2022 کو عرب نیوز کو انٹرویو دے رہی ہیں۔

اردن کی شہزادی سارہ زید نے پاکستانی حکومت سے ملک میں تباہی پھیلانے والے سیلاب کے تناظر میں خواتین اور بچوں کے لیے غذائیت کی فراہمی کو تیز کرنے پر زور دیا ہے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 22 کروڑ آبادی میں سے تقریباً 37 فیصد کو غذائی قلت کے خطرے کا سامنا ہے۔

پانچ سال سے کم عمر کے 18 فیصد پاکستانی بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جب کہ اسی عمر کے تقریباً 40 فیصد بچوں کی نمو میں کمی اور 29 فیصد کا وزن مطلوبہ معیار سے کم ہے۔

اس بات کے خدشات بڑھ رہے ہیں کہ ملک میں جاری طوفانی بارشوں اور سیلاب سے فوڈ سکیورٹی کی صورت حال مزید خراب ہو جائے گی جہاں پہلے ہی تین کروڑ سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

پاکستان میں 14 جون سے غیر معمولی بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے جہاں قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے کے حکام کے مطابق کم از کم 982 اموات ریکارڈ ہوئی ہیں۔

بلوچستان اور سندھ  صوبے بارشوں کے نقصانات اور سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

اس تناظر میں ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کی ماں اور بچے کی غذائیت کے بارے میں خصوصی مشیر اور اردن کی شہزادی سارہ زید نے اسلام آباد میں عرب نیوز کو دیے جانے والے انٹرویو میں کہا: ’پاکستان میں جاری خوفناک سیلاب سب سے زیادہ خواتین اور لڑکیوں کو متاثر کرے گا۔ بچوں کو (گندے) پانی سے بیماریاں لاحق ہوں گی۔ لہٰذا ان نقصانات سے بچنے کے لیے کافی تیز اور لچکدار پروگرام کی ضرورت ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کوئی بھی پیچھے نہ رہے اور ہر ایک کو تعلیم اور غذا تک رسائی اور مدد فراہم کی جائے جس کے وہ مستحق ہیں اور یہ قوم کے لیے بہترین چیز ہے۔‘

شہزادی سارہ 21 اگست سے ایک ہفتے طویل دورے پر پاکستان میں موجود ہیں جو ان کا اس ملک کا دوسرا دورہ ہے جس میں وہ 2019 دورے کے دوران پیش کیے گئے پروگرام کا جائزہ لے رہی ہیں۔

وہ گذشتہ تین سالوں کے دوران پاکستان میں خواتین اور بچوں کی غذائیت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے عالمی ادارے کی نمائندگی کر رہی ہیں۔

شہزادی سارہ نے عرب نیوز کو مزید بتایا کہ ’اس حقیقت کا جشن منانا چاہیے کہ حکومت پاکستان نے نہ صرف ماؤں کے لیے غذا اور صحت مند نشوونما کے لیے ایک رہنما کردار کو قبول کیا ہے بلکہ یہ اس سے بھی آگے بڑھ گیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کیے گئے اقدامات غیر معمولی تھے۔

ان کے بقول: ’میں پاکستانی حکومت سے کہوں گی کہ وہ نہ رکیں اور اس پروگرام کو جاری رکھیں۔ میں یہاں حکومت پاکستان کی حوصلہ افزائی کے لیے آئی ہوں تاکہ وہ ماؤں اور بچوں کی تندرستی اور غذائیت میں سرمایہ کاری کو جاری رکھیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کے دورے کے دوران شہزادی سارہ نے ماں اور بچے کی صحت پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کے لیے کئی سرکاری حکام سے ملاقاتیں کیں اور سندھ اور اسلام آباد میں ڈبلیو ایف پی کے تعاون سے چلنے والے کئی غذائی منصوبوں کا دورہ کیا۔

انہوں نے اس بارے میں بتایا: ’میں جن (پاکستانی) خواتین سے ملی ہوں وہ ہر سطح پر غیر معمولی ہیں۔‘

ان کے بقول: ’یہاں کام کرنے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز شاندار ہیں اور انہوں نے اپنی کمیونٹی میں جو کردار ادا کیا وہ واقعی غیر معمولی ہے۔‘

شہزادی سارہ نے تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا کرنے کی ضرورت کے بارے میں بات کی تاکہ ملک میں سکول چھوڑنے کے تناسب کو کم کیا جا سکے۔

ایک اندازے کے مطابق دو کروڑ سے زیادہ بچے سکول نہیں جا پاتے جو کہ یونیسیف کے مطابق دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔

سکول نہ جانے والے بچوں میں سے اکثریت، تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ، لڑکیوں کی ہے جنہیں ثقافتی اور سماجی رکاوٹوں کا سامنا ہے جو انہیں تعلیم حاصل کرنے سے روکتی ہیں خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔

شہزادی سارہ نے اس بارے میں کہا: ’اس بات کی کوئی وجوہات نہیں کہ لڑکیاں سکول نہیں جا سکتیں۔ ہمیں لڑکیوں کے سکول میں رہنے کے لیے سازگار ماحول بنانا ہے۔‘

انہوں نے دنیا کے پانچویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں شعور اجاگر کرنے پر زور دیا جہاں آبادی کی شرح نمو تقریباً دو فیصد ہے۔

بہبود آبادی پر بات کرتے ہوئے شہزادی سارہ نے کہا: ’ایک خاتون کو یہ فیصلہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے کہ وہ کب اور کتنے بچے پیدا کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے تعلیم اور معلومات کی ضرورت ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کو زیادہ بچے پیدا کرنے کے لیے سماجی دباؤ کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔

ان کے بقول: ’ایک خاتون اور اس کے شوہر کو خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک رسائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ شوہروں کو اپنی بیویوں کی صحت کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان کا خاندان خوشحال اور صحت مند رہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان