اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے جمعرات کو پولیس اور عدلیہ کو مبینہ طور پر دھمکیاں دینے کے مقدمے میں سابق وزیراعظم عمران خان کی عبوری ضمانت میں 12 ستمبر تک توسیع کردی ہے۔
اس سے قبل انسداد دہشت گردی عدالت نے 25 اگست کو عمران خان كی ایک ہفتے کی عبوری ضمانت منظور کی تھی۔ انہیں انسداد دہشت گردی کے قانون (اے ٹی اے) کے تحت مقدمے کا سامنا ہے جو ان پر سینیئر پولیس اہلکاروں اور عدلیہ کو مبینہ طور پر دھمکیاں دینے پر قائم کیا گیا تھا۔
جمعرات کو انسداد دہشت گردی عدالت میں اس کیس کی سماعت شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے دلائل کا آغاز کیا۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجہ حسن جواد نے عمران خان کی موجودگی سے متعلق دریافت کیا تو وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ’اسلام آباد پولیس نے کہا ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔‘
بابر اعوان نے کہا کہ ’ان کے موکل آنا چاہتے تھے لیکن پولیس کی وارننگ کے باعث رک گئے۔‘
جس پر عدالت نے کہا کہ عمران خان کی جان کو خطرات سے متعلق تفصیلات پیش کی جائیں۔
بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کے خلاف درج مقدمے میں مزید چار دفعات شامل کر دی گئی ہیں، اس لیے ان کے موکل کو ان دفعات میں بھی ضمانت دی جائے۔‘ جس پر جج نے کہا کہ ’نوٹس جاری کیا جائے گا۔‘
جج راجہ حسن جواد نے ریمارکس دیے کہ ملزم عمران خان کو عدالت کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔
معزز جج نے مزید کہا کہ اس ضمانت پر آج ہی دلائل سنے جائیں گے، جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ ملزم کے عدالت میں پیش ہونے پر بحث کریں گے۔
جج نے پراسیکیوٹر کو مخاطب کرکے کہا کہ مقدمے کا مکمل ریکارڈ پیش کریں اور اگر کسی کو دھمکی دی گئی تو اس کا بیان بھی پڑھ کر سنایا جائے۔
اس کے ساتھ ہی عدالت نے ملزم عمران خان کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت دن 12 بجے تک ملتوی کر دی۔
12 بجے سماعت کے دوبارہ آغاز پر پی ٹی آئی چیئرمین عدالت میں پیش ہوئے، جہاں سماعت کے دوران انسداد دہشت گردی عدالت نے عمران خان کی عبوری ضمانت میں 12 ستمبر تک کی توسیع کردی۔
سکیورٹی کے سخت انتظامات
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی پیشی کے موقعے پر انسداد دہشت گردی کی عدالت اور اطراف کے علاقے میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی بڑی تعداد عدالت کی عمارت کے باہر تعینات ہے۔ تمام راستے ٹریفک کے لیے بند کر دیے گئے ہیں جبکہ غیر متعلقہ افراد کو بھی عدالت کی عمارت کی طرف جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
اس سے قبل ابتدائی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں گفتگو میں عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے کہا تھا کہ ’عمران خان کی سکیورٹی کم کر دی گئی ہے اور وہ سفید پوش افراد کے درمیان بدھ کو ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’وفاقی حکومت نے عمران خان کی سکیورٹی پر تعینات گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے پولیس اہلکاروں کو ہٹانے کا حکم دیا ہے، جس سے ان کی جان کو خطرے میں اضافہ ہو گیا ہے۔‘
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا ہے کہ ان کے موکل عمران خان کو کچھ ہونے کی صورت میں آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی ذمہ دار ہوں گے۔
عمران خان کے خلاف مقدمہ کب اور کیوں درج ہوا؟
سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف سینیئر پولیس اہلکاروں اور عدلیہ کو مبینہ طور پر دھمکیاں دینے پر انسداد دہشت گردی کے قانون (اے ٹی اے) کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔
استغاثہ کے مطابق عمران خان نے 20 اگست کو اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں منعقد ریلی سے خطاب میں انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) اسلام آباد، ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) اسلام آباد اور وفاقی دارالحکومت میں تعینات ایک خاتون جوڈیشل مجسٹریٹ زیبا چوہدری کو مبینہ طور پر دھمکیاں دیں تھیں۔
سابق وزیر اعظم نے مذکورہ ریلی ان کے گرفتار چیف آف سٹاف شہباز گل پر مبینہ پولیس تشدد کے خلاف احتجاج کے لیے منعقد کی تھی۔
ریلی سے خطاب میں شہباز گل پر مبینہ جسمانی تشدد کے باعث آئی جی اور ڈی آئی جی کو دھمکیوں کے علاوہ عمران خان نے جوڈیشل مجسٹریٹ زیبا چوہدری کا نام لے کر اپنی تقریر میں ذکر کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جوڈیشل مجسٹریٹ زیبا چوہدری نے ریلی سے ایک روز قبل ہی شہباز گل کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کی بجائے طبی معائنے کے لیے پولیس کی حراست میں رکھنے کا حکم دیا تھا۔
ریلی کے بعد مجسٹریٹ علی جاوید نے اسلام آباد کے مارگلہ پولیس سٹیشن میں سابق وزیراعظم کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی شق سات (7 اے ٹی اے) کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمے کے اندراج کے بعد عمران خان کی گرفتاری کی افواہوں نے زور پکڑ لیا تھا اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد اسی رات چیئرمین پی ٹی آئی کی بنی گالہ میں رہائش گاہ پر اکٹھی ہو گئی تھی۔
عمران خان کی 20 اگست کی تقریر میں جج زیبا چوہدری کو مبینہ دھمکیوں کا مسئلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی فل بینچ کے سامنے زیر سماعت ہے جہاں پی ٹی آئی کے سربراہ نے مشروط معافی کی حامی بھری ہے۔
گذشتہ روز (31 اگست) کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت عالیہ نے عمران خان کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے سات روز میں ترمیم شدہ جواب داخل کروانے کی ہدایت کی تھی۔
انسداد دہشت گردی عدالت کی گذشتہ سماعت کا احوال
گذشتہ سماعت کے دوران عمران خان کے وکلا بابر اعوان اور علی بخاری نے موقف اختیار کیا تھا کہ پولیس نے انتقامی کارروائی کے تحت انسداد دہشت گردی کا مقدمہ بنایا، لہٰذا عدالت درخواست گزار کی ضمانت قبل از گرفتاری کی استدعا منظور کرے۔
ضمانت کی درخواست پر انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس نے سماعت کی تھی۔
سماعت کے دوران جج نے دریافت کیا تھا کہ کیا عمران خان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے والے جج علی جاوید کو دھمکی دی گئی تھی؟
اس پر بابر اعوان نے جواب دیا تھا کہ عمران خان کے خلاف مقدمہ مجسٹریٹ علی جاوید نے درج کروایا تھا اور ایف آئی آر میں ان کا پتہ ڈپٹی کمشنر آفس کا لکھا ہوا ہے۔
بابر اعوان نے اپنے دلائل میں مزید کہا تھا کہ ’استغاثہ کے مطابق تین افراد کو دھمکیاں دی گئیں جن میں اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی)، ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) اسلام آباد اور مجسٹریٹ زیبا چوہدری شامل تھے۔‘
بابر اعوان نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ مذکورہ تینوں افراد میں سے کسی نے بھی سابق وزیراعظم کے خلاف دھمکیاں دینے کا مقدمہ درج نہیں کیا۔