ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ لگتا تھا ہم زمین پر نہیں سمندر کے بیچ کھڑے ہیں۔ پانی نے پورے گاؤں میں کسی کو سنبھلنے نہیں دیا۔ نہ میرا گھر بچ سکا، نہ مویشی اور نہ سامان۔
اگلے موسم کی بوائی کے لیے جو بیج رکھے تھے وہ بھی بہہ گئے۔
ہم پھر بھی خوش نصیب ہیں کہ ہمیں کشتی کے ذریعے بچا لیا گیا۔ جب ریسکیو والے ہم تک پہنچے تو شام کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ ہم زندگی سے نا امید ہو چکے تھے۔
ہم سے چند گھر دور ایک بیوہ خاتون اپنے تین بچوں کے ساتھ رہتی تھیں، مگر اب گھر کہاں تھے کہ راستے کی سمجھ رہتی۔ ان کی چیخوں کی آواز پر ریسکیو اہلکاروں نے اپنی کشتی اس طرف موڑ دی۔ وہ گھر کے ملبے کے آس پاس سیلابی پانی میں بے قراری سے ہاتھ پاؤں مار رہی تھیں اور ریسکیو ٹیم کے ساتھ جانے کے لیے کسی صورت تیار نہیں تھیں۔
سیلابی ریلا ان کے دو بچے اپنے ساتھ بہا لے گیا تھا۔ یہ کہانی ڈیرہ اسماعیل خان کے گاؤں ’رشید‘ کے رہائشی محمد بخش کی ہے۔
سیلاب نے ہزاروں کہانیوں کو جنم دیا ہے۔ کچھ کو تاریخ لکھ بھی لے، زیادہ تر کو آسمان بھلا دے گا۔ یہ کہانی ڈیرہ اسماعیل خان کے باسیوں کے دکھوں اور محبتوں کی کہانی ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل نائیویلہ کے گاؤں ’مکڑ‘ کو سیلابی ریلوں کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑا۔
یہ گاؤں کوہِ سلیمان کے دامن میں اولین علاقوں میں شامل ہے، جہاں کی رود کوہی ( پہاڑی پانی کی قدرتی گزرگاہ) نظام سے کوہِ سلیمان کا پانی گزر کر مشرق میں دریائے سندھ سے جا ملتا ہے۔
یہ رود کوہی اس گاؤں کی پانی کی ضرورت کو تو کبھی کبھار ہی پورا کر پاتی ہے، مگر سیلابی ریلے میں پورا گاؤں بہا لے جانے میں بھی کوئی مدد نہ کر سکی۔
یہاں پانی کا بہاؤ عمومی سطح سے 20 فٹ بلند ہو گیا اور یوں مکڑ گاؤں چھ فٹ بلند پانی کی تیز لہروں میں بہہ گیا۔
دور اندیش افراد نے پانی کی سطح بلند ہوتے ہی اونچے مقامات پر پناہ لی مگر مویشیوں اور سامان کو بچانے کا وقت نہیں مل سکا۔
اتوار 28 اگست تک اس گاؤں کو باقی دنیا سے کٹے ہوئے چار روز گزر چکے تھے۔
گاؤں کے چاروں اطراف پانی کا بہاؤ اب بھی اتنا تیز تھا کہ کسی امدادی کارکن کے لیے وہاں جانا ممکن نہ تھا۔
ایسے میں ڈیرہ اسماعیل خان کے نوجوان رضا کار سید ایقان حیدر نے گاؤں مکڑ پہنچنے کا فیصلہ کیا۔
سیلابی ریلا گاؤں تک پہنچنے والی 16 کلومیٹر نیم پختہ سڑک کا بڑا حصہ بہا لے گیا تھا، لہذا گاؤں کی طرف سفر کرنے میں دو رکاوٹیں تھیں۔
خشکی سے کوئی باقاعدہ راستہ موجود نہیں تھا اور گاؤں چاروں اطراف سے پانی کے تیز بہاؤ میں جزیرہ بنا ہوا تھا۔
ایسے میں سید ایقان حیدر کے سرگودھا یونیورسٹی کے کچھ دوست امدادی سامان ایک بس میں بھر کے لائے تاکہ ڈیرہ اسماعیل خان کے سیلاب متاثرین کی مدد کی جاسکے۔
بس اس راستے پر رینگتی ہوئی آگے بڑھنے لگی تو راستے پر ملنے والے ہر شخص نے روک کر اس طرف جانے سے منع کیا، مگر یہ نوجوان اپنی دھن کے پکے تھے۔
16 کلومیٹر کا فاصلہ لگ بھگ دو گھنٹوں میں طے ہوا۔ اب ان کے سامنے ایک دریا تھا اور گاؤں کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
ایسے میں مقامی شکاریوں کی ایک کشتی اس پانی میں دکھائی دی جو پرندوں اور مچھلیوں کے شکار کی خاطر اس پرخطر جگہ آن پہنچے تھے۔
نوجوانوں نے کنارے سے جوشیلے نعرے پکارے، ’ہمارے پاس مدد ہے، ہم مکڑ جانا چاہتے ہیں۔‘
مقامی شکاریوں نے حیرت اور خوشی کا اظہار کیا۔ اگلے 15 منٹوں میں یہ نوجوان سرخ رنگ کی لائف جیکٹیں پہنے سامان سروں پر اٹھائے کشتی تک پہنچانے لگے۔ یہ سب کرتے کرتے شام ہو چکی تھی، مگر بڑھتا اندھیرا بھی ان کی ہمت کو متزلزل نہیں کر سکا۔
گاؤں کی اس بلند سطح پر جہاں لوگ کھلے آسمان تلے موجود تھے، یہ گذشتہ چار دن میں سیلاب کے بعد پہنچنے والی پہلی امداد تھی۔
گاؤں کے مکین خوشی سے ان کی طرف دوڑے، بچے جو بھوک سے ماؤں کے پہلوؤں میں سسک رہے تھے پر امید نظروں سے ان مسیحاؤں کو تکنے لگے۔ یہ لمحے ایسے تھے جسے بیان کرنے والے کبھی بیان نہ کر سکیں گے۔
نصف شب تک کشتی نے کئی چکر لگائے اور گاؤں کے لوگوں کے لیے پینے کا پانی، تیار کھانا، خشک راشن، بچوں کا دودھ، کھانے پینے کی اشیا، بستر، خیمے اور ضروری ادویات پہنچائیں۔
سید ایقان حیدر واحد نہیں۔ اس دھرتی نے ایسے سینکڑوں گمنام ہیروز کو پیدا کیا ہے۔
یہ معمول کے دن نہیں تھے۔ سیلاب نے اس وسیع و عریض ضلعے (ڈیرہ اسماعیل خان) کے تقریباً 87 فی صد علاقے کو ڈبو رکھا تھا۔
اس آفت سے کوئی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا تھا۔ شہر کے باسیوں کا جذبہ پانی کی لہروں سے کہیں اونچا تھا، مگر پھر بھی پانی جاتے جاتے کئی زندگیاں لے گیا۔
پانی کی یہ جارحیت جاری تھی کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے چند دوستوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے ہی وسائل سے ہر مرکزی گاؤں میں روزانہ کی بنیاد پر میڈیکل کیمپ لگایا جائے۔
یہ فیصلہ کرنے والے چند قریبی دوست تھے جو عام دنوں میں اس چھوٹے شہر میں روزانہ گپ شپ کے لیے جمع ہوتے، باتیں ہوتیں، ہفتہ وار مقامی کھانے (ثوبت) کا اہتمام ہوتا اور نئے ہفتے سے پھر سب اپنے کام میں لگ جاتے۔
قریبی دوستوں کا یہ گروپ ڈاکٹر عبدالرحمٰن یزدانی، عمار یاسر، طارق سید، شیراز آفتاب، اویس خان جوجو، اسرار ماشوم، محمد عثمان، نعمان اور فہیم پر مشتمل تھا۔
بس فیصلہ ہوا، دوستوں کی جیبوں سے ایثار کا قرض ادا ہوا اور اس رقم سے ہر گاؤں میں سیلاب متاثرین کے لیے کیمپ نے اپنا کام شروع کر دیا۔
اتفاق سے یہ اتوار، 28 اگست کا ہی دن تھا۔ ڈاکٹر صاحب اور ان دوستوں کی ٹیم نے ڈیرہ اسماعیل خان کی یونین کونسل کیچ کے گاؤں مقیم شاہ میں میڈیکل کیمپ لگایا ہوا تھا۔ شام کا وقت قریب تھا۔
دن بھر آس پاس کے قریبی گاؤں سے لوگ مختلف بیماریوں کی شکایت سے آئے تھے اور دوائیاں لے کر لوٹ گئے تھے۔ دست اور ملیریا کی شکایات تھیں، خارش اور جلدی مسائل، پیٹ کی بیماریاں اور ذہنی دباؤ کی شکایات عام تھیں۔
سارے دن کے کام کاج سے تھک کر اب یہ رضاکار واپس جانے کی تیاری کر رہے تھے، سامان سمیٹا جا رہا تھا کہ اچانک ایک طرف سے شور مچاتے پانچ چھ لوگ بھاگے بھاگے آئے۔ حواس باختہ چہروں اور خوفزدہ چیخوں نے ماحول کو پریشان کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر صاحب ان کی طرف لپکے۔ یہ ایک دو سال کی کمسن بچی تھی، جو باپ کے ہاتھوں پر بے سدھ پڑی تھی۔ سانس بند تھی اور زندگی کے آثار کہیں نہیں تھے۔ باپ کچھ کہہ نہ سکا اس نے کانپتے بازؤں سے بچی کو آگے بڑھایا۔
یہ معصوم پانی میں ڈوب گئی تھی اور اسے کافی دیر کے بعد پانی سے تلاش کر کے نکالا گیا تھا۔
یہاں تک لانے میں کتنا وقت لگا تھا، یہ پوچھنے کا وقت نہیں تھا۔ بچی کا جسم سانس رکنے پر آکسیجن کی کمی سے نیلا ہو چکا تھا۔
آگے کا بیان خود ڈاکٹر عبدالرحمٰن نے اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا۔
’ہم نے ہنگامی طبی امداد (سی پی آر) شروع کی، بچی کے پیٹ سے پانی نکالا اور منہ سے مصنوعی سانس دینے لگے مگر کوئی حرکت نہ تھی۔ اب بچی کو پاؤں سے تھام کر الٹا لٹکایا اور پیٹھ تھپکنے لگے۔ مگر بچی کا بے سدھ جسم جھول گیا اور زندگی کی کوئی رمق دکھائی نہ دی۔
’ہم بچی کو جانے نہیں دے سکتے تھے مگر وہ ہمارے ہاتھوں سے جا رہی تھی۔ ایک مرتبہ پھر سی پی آر شروع کی بچی کے سینے پر بار بار ہاتھوں کے دباؤ سے پمپ کیا اور منہ سے مصنوعی سانس دینے لگے اور آدھے گھنٹے کی مسلسل محنت کے بعد بچی رونے لگی۔ یہ رونا ہماری زندگیوں کا سب سے خوبصورت نغمہ تھا۔ ہم بچی کی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے تھے زندگی آج ہی تو بامقصد لگی تھی۔‘
سیلاب نے جہاں انسانی المیے کو جنم دیا وہاں انسانی جذبوں نے موجوں کو ہرانے کی تاریخ بھی رقم کی۔ یہ جذبے باقی رہے تو بحالی کے عمل میں محبت فاتحِ عالم کئی اور داستانیں رقم کرے گی۔