افغان طالبان کے ایک ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے جمعے کو وضاحت کی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا افغان طالبان انتظامیہ کی پالیسی نہیں۔
طالبان کے قطر میں دفتر کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے یہ وضاحت سوشل میڈیا پر جمعرات سے وائرل اس ویڈیو کے بعد جاری کی جس میں انہیں الجزیرہ عربی کو دیے جانے والے ایک انٹرویو کے دوران دیکھا جا سکتا ہے۔
انٹرویو کا ایک حصہ ’مڈل ایسٹ میڈیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ (میمری) کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر انگریزی ترجمے کے ساتھ پوسٹ کیا گیا، جو خود کو ’امریکہ میں مشرق وسطیٰ پر تحقیق کرنے والا ادارہ‘ قرار دیتا ہے۔
میمری کے اکاؤنٹ سے پوسٹ کیے گئے اس کلپ سے یہ تاثر ابھرا کہ افغان طالبان کو اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں۔
تاہم جب انڈپینڈنٹ اردو نے طالبان ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم سے استفسار کیا تو انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔
ڈاکٹر محمد نعیم کا کہنا تھا: ’گذشتہ روز الجزیرہ عربی کے ساتھ افغانستان کے مسائل پر انٹرویو ہو رہا تھا کہ میں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ہماری پالیسی یہ ہے کہ جس (ملک) کے ساتھ بھی کوئی مسئلہ ہو، ہم اسے بات چیت کے ذریعے حل کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول ڈاکٹر نعیم: ’اس سوال کے جواب کے بعد اینکر نے فوراً اسرائیل کے بارے میں پوچھا، جس کے جواب میں، میں نے کہا کہ اسرائیل کو درمیان میں لانے کا افغانستان کے ساتھ کیا تعلق ہے؟‘
ڈاکٹر نعیم نے اسرائیل کے حوالے سے افغان طالبان کی پالیسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مقبوضہ بیت االمقدس پر افغان طالبان کی پالیسی بالکل واضح ہے کہ وہ مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’فلسطین میں اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے، وہ ظلم ہے اور ہم کسی طرح بھی ظلم کا ساتھ نہیں دے سکتے۔
’اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات یا اسے تسلیم کرنا ہماری پالیسی نہیں۔ افغان طالبان کی پالیسیاں شرعی اور قومی فائدے کے لیے ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے رابطے کی کوشش کی، تاہم ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔
کیا اس ویڈیو کو واقعی ایڈٹ کیا گیا؟
طالبان ترجمان ڈاکٹر نعیم کے الجزیرہ عربی کو دیے گے انٹرویو کو مڈل ایسٹ میڈیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (میمری) نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پوسٹ کیا تھا اور اس پر انگریزی سب ٹائٹل لگائے گئے ہیں۔
میمری کا مرکزی دفتر امریکہ میں واقع ہے اور اس ادارے کے مطابق یہ ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جو عربی، اردو، پشتو، فارسی اور ترکی زبان میں شائع میڈیا رپورٹوں کا انگریزی میں ترجمہ کرتا ہے تاکہ مغربی اور مشرقی ممالک کے مابین زبان کی دوری ختم ہو سکے۔
اس ادارے کی بنیاد اسرائیلی انٹیلی جنس کے سابق عہدیدار ایگال کارمن نے 1998 میں رکھی تھی، ایگال بعد میں اسرائیلی صدر کے مشیر بھی رہے۔
اس ادارے کی جانب سے انٹرویو کا انگریزی میں ترجمہ کرکے سب ٹائٹلز اور انٹرویو کے الفاظ کو دیکھا جائے تو انگریزی ترجمے میں بھی غلطی ہے اور انٹرویو میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات نہیں کی گئی۔
انٹرویو میں اینکر نے سوال کیا تھا کہ ’کیا طالبان اپنے مخالفین کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں؟‘ اس کے جواب میں ڈاکٹر نعیم نے کہا تھا کہ ’ہاں افغان طالبان مخالفین کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔‘
اس کے بعد اینکر نے سوال کیا کہ ’کیا اسرائیل کے ساتھ بھی؟‘ اس کے جواب میں ڈاکٹر نعیم کہتے ہیں کہ ’ہم بات کچھ اور کر رہے ہیں اور آپ اسرائیل کو درمیان میں لے آئے۔‘
اس کے بعد انٹرویو میں ڈاکٹر نعیم نے دوبارہ وہی بات دہرائی کہ وہ اپنے مخالفین کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں تاہم اس انٹرویو میں ڈاکٹر نعیم نے کہیں پر بھی یہ بات نہیں کہی کہ ’افغان طالبان اسرائیل کے ساتھ بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں۔‘