محض 19 سال کی عمر میں ایگنیس گونکسا بوجیکسو نے جب آئرلینڈ سے متحدہ ہندوستان کا سفر کیا تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سفر ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل دے گا اور خدمت خلق کی دنیا میں ان کا نام عزت و تکریم کی علامت بن جائے گا۔
26 اگست 1910 کو شمالی مقدونیہ کے شہر اکسپ (موجودہ سکوپئے) میں ایگنیس گونکسا بوجیکسو کے نام سے البانوی نسل کے والدین کے گھر جنم لینے والی اس بچی کو دنیا اب مدر ٹریسا کے نام سے جانتی ہے۔
1910 میں ان کی پیدائش کے وقت شمالی مقدونیا کا یہ علاقہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔
صرف 12 سال کی عمر میں ہی ایگنیس اس وقت مذہب کی جانب متوجہ ہوئیں جب ان کے ہم عمر کھیل کود میں مصروف تھے۔ 18 سال کی عمر میں انہوں نے اپنا گھر اور ملک چھوڑا اور آئرلینڈ جا کر آئرش ننز کی ایک تنظیم ’سسٹرز آف لوریٹو‘ میں شمولیت اختیار کر لی جہاں انہیں سسٹر ٹریسا کا نام دیا گیا۔
آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن میں چند ماہ کی تربیت کے بعد انہیں 1929 میں متحدہ ہندوستان روانہ کیا گیا جہاں انہوں نے 24 مئی 1931 کو نن کا حلف اٹھایا۔
متحدہ ہندوستان کے شہر کلکتہ میں انہوں نے 1931 سے 1948 تک مشنری سکول میں معلمہ کے طور پر کام کیا۔ ان کی لگن دیکھ کر انہیں کونوینٹ سکول کی ہیڈ مسٹریس بنا دیا گیا۔
ان کی سوانح عمری پر لکھی گئی معتبر کتاب ’مدر ٹریسا‘ کی مصنفہ کیتھرین سپنک کے مطابق اس شہر میں غربت اور لوگوں کے مسائل کو دیکھ کر انہوں نے مشنری سکول کی انتظامیہ سے اجازت لے کر سکول چھوڑنے اور شہر کے لاچار لوگوں کی مدد کرنے کا ارادہ کیا۔
سال 1946 میں انہوں نے اس شہر میں ایک خیراتی ادارے کی بنیاد رکھی اور جلد ہی ان کی شناخت سسٹر ٹریسا کے بجائے مدر ٹریسا کے نام سے ہونے لگی۔
ان کے اس جذبے کو دیکھ کر دیگر لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہونا شروع ہوئے اور جلد ہی ان کے کام کو مالی مدد ملنا شروع ہو گئی جس کے بعد انہوں نے اپنی امدادی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تقسیم ہند کے بعد 1948 میں انہوں نے انڈین شہریت اخیتار کی۔ 1952 میں انہوں نے کلکتہ میں ’ہوم آف ڈائنگ‘ کا قیام عمل میں لایا جس کے بعد 1957 میں ان کے ادارے نے انڈیا میں لیپروسی کلینک قائم کیا جس میں جذام کے مریضوں کا علاج کیا جاتا تھا۔
سال 1960 میں انڈیا میں تین دہائیاں گزارنے کے بعد انہوں نے پہلی بار ملک سے باہر سفر کیا جس کا مقصد اقوام متحدہ میں نیشنل کونسل آف کیتھولک ویمن نامی تنظیم سے خطاب کرنا تھا۔
سال 1965 میں پوپ پال ششم کے مذہبی حکم نامے کے تحت ان کے خیراتی ادارے کو براہ راست ویٹی کن کے دائرہ اختیار میں شامل کر لیا۔
اسی سال انہوں نے انڈیا سے باہر پہلا مشنری سکول قائم کیا جو لاطینی امریکہ کے ملک وینزویلا میں کیا گیا۔ جس کے بعد افریقہ، شمالی امریکہ اور آسٹریلیا سمیت دنیا بھر میں مشنری خیراتی ادارے کھولے گئے۔
انسائیکلو پیڈیا بریٹینکا کے مطابق ان کی وفات تک ان کا مشنری ادارہ دنیا کے 90 ممالک میں فعال تھا جہاں چار سے زائد ننز اس ادارے سے وابستہ تھیں۔
1962 میں انڈین حکومت نے انہیں بھارت کے اعلی ایوارڈ پدما شری سے نواز جب کہ سال 1964 میں پوپ پال ششم نے انہیں لیموزین گاڑی تحفے میں دی جسے انہوں نے فوری طور پر خیراتی ادارے کو دے دیا۔
اس دوران ان کا خیراتی ادارہ سوسائٹی آف مشنریز پوری دنیا میں پھیل چکا تھا جس میں سابقہ سوویت یونین کے علاوہ مشرقی یورپ کے ممالک بھی شامل تھے۔ جذام کے مریضوں کے علاج سے شروع ہونے والا یہ ادارہ اب شمالی امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا سمیت دنیا بھر میں بے گھر افراد، ایڈز کے مریضوں اور شراب نوشوں کی بھی نگہداشت کرتا ہے۔
سال 1979 میں جب مدر ٹریسا کو ان کی 40 سالہ خدمات پر نوبیل انعام سے نوازا گیا تو انہوں نے اس کے ردعمل میں جو الفاظ کہے وہ کچھ یوں تھے ’میں اس قابل نہیں۔‘ جبکہ 1980 میں انڈین حکومت نے ان کو بھارت رتنا ایوارڈ سے نوازا۔
مدر ٹریسا نے 1991میں جب پاکستان کا دورہ کیا تو اس دورے کے دوران وہ اسلام آباد کے ’آور لیڈی آف فاطمہ‘ چرچ بھی آئیں جہاں انہوں نے ایک دعائیہ تقریب سے خطاب بھی کیا۔ جبکہ لاہور میں انہوں نے سینٹ میری سیمنری کا دورہ کیا اور ایک تقریب سے خطاب بھی کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے لاہور میں ’ہوم آف لو‘ کے نام سے ایک خیراتی ادارے کا افتتاح بھی کیا۔
کراچی میں بھی انہوں نے سینٹ پیٹرک کیتھڈرل میں دعائیہ تقریب سے خطاب کیا اور اپنے مشنری ادارے میں دو دن تک قیام کیا۔
یونین آف کیتھولک ایشین کی ویب سائٹ کے مطابق کراچی میں اس تقریب کے دوران مدر ٹریسا کا کہنا تھا کہ ’کراچی کے اس خوبصورت شہر میں کسی بھی مرد یا خاتون کو اپنا آپ غیر ضروری نہیں محسوس کرنا چاہیے۔ یہاں کسی کو تنہائی میں اپنے پیاروں کے بغیر نہیں مرنا چاہیے۔‘
سی این این کے مطابق پانچ ستمبر 1997 کو جب 87 سال کی عمر میں حرکت قلب بند ہو جانے سے مدر ٹریسا کا انتقال ہوا تو ان کی آخری رسومات میں دنیا بھر کے اہم رہنماؤں اور شخصیات نے حصہ لیا۔
ان کی آخری رسومات میں 15 ہزار سے زائد افراد شریک تھے جن میں اٹلی کے صدر آسکرو لوئگی، اردن کی ملکہ نور، اس وقت امریکہ کی خاتون اول ہیلری کلنٹن اور سپین کی ملکہ صوفیہ شامل تھے۔
مدر ٹریسا کی میت کو اسی ’گن کیرج‘ یعنی توپ گاڑی میں قبرستان منتقل کیا گیا جس گاڑی پر 1948 میں انڈیا کی تحریک آزادی کے رہنما موہن داس کرم چند مہاتما گاندھی کو شمشان گھاٹ منتقل کیا گیا تھا۔
2016 میں ویٹی کن چرچ کے سربراہ پوپ فرانس اول نے انہیں سینٹ کا درجہ دیا۔ جس کے بعد اب انہیں سینٹ ٹریسا آف کلکتہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔